حدیث کی اہمیت و ضرورت

حدیث کی اہمیت و ضرورت


حدیث کی ضرورت و اہمیت 


  کسی بھی علم کی اہمیت کا اندازہ اس علم کے موضوع سے لگایاجاسکتاہے۔ علم اصول حدیث کا موضوع سندومتن یعنی حدیث ہے اورحدیث کی اہمیت کاانکار نہیں کیا جاسکتاکیونکہ شریعت کے بہت سے احکام جس طرح قرآن پرمبنی ہیں اسی طرح حدیث بھی احکام شرعیہ کا ایک اہم ترین ماخذہے۔چنانچہ اس مقدمہ کو چار حصوں پر تقسیم کیا جاتاہے:


 (۱) ضرورتِ حدیث (۲)  حجیت ِحدیث (۳)  تدوین ِحدیث (۴) سند ِحدیث کی اہمیت۔


 (۱) ضرورت حدیث:


          قرآنِ کریم مکمل ضابطۂ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجو ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں جب تک کہ احادیثِ معلِّمِ کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نمازہی کو لیجئے، قرآن کریم میں کم وبیش سات سو (۷۰۰) مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر ا س کے قائم کرنے کا حکم دیاگیاہے جیسا کہاللہ تعالٰی کا فرمان ہے :{ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ } (نماز قائم کرو) ۔


          چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ ’’ صـلاۃ ‘‘ ہے کیا، اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور اگر اس کا معنی سمجھنے کیلئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں گے اور اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کےمابین بہت فرق ہے۔


          الغرض اس کے اصطلاحی معنی ہمیں صرف احادیث یعنی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اقوال وافعال واحوال سے ہی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کیلئے نیز زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں ہادیٔ برحق صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رہنمائی کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہاللہ تعالٰی نے بندوں کو قرآن کریم سکھانے اور انہیں ستھرا کرنے کیلئے نبی ِآخرالزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا، چنانچہ ربّ عزوجل فرماتاہے:


یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (۱۶۴) (آل عمران: ۱۶۴)


ترجمۂ کنزالایمان: ’’ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اورا نہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘


          اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اسی لئے تواللہ تعالٰی نے آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دنیا میں بھیجا۔اگرقرآن کریم مطلقاًآسان ہوتااور اسے بغیر رہنمائی کے سمجھا جاسکتاتواللہ تعالٰی اس کے سمجھانے کیلئے خصوصی طور پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبطورِ معلِّمِ کائنات مبعوث کیوں فرماتا؟ نیز قرآن کریم کے آسان ہونے کے باوجود کسی سکھانے والے کو بھیجنا عبث قرار پاتاحالانکہاللہ تبارک وتعالی کی یہ شان نہیں کہ اس کی طرف کوئی عبث وفضول راہ پائے۔


(۲) حُجِّیتِ حدیث:


          یاد رہے کہ جس طرح قرآن احکامِ شرع میں حجت ہے اسی طرح حدیث بھی۔اور اس سے بہت سے احکامِ شریعت ثابت ہوتے ہیں۔چنانچہ رب عزّوجلّ فرماتاہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-ترجمۂ کنز الایمان:   ’’ اور جو کچھ تمہیں  رسول عطا فرمائیں  وہ لو اور جس سے منع فرمائیں  باز رہو ‘‘ ۔


          یہاں  سے معلوم ہوتاہے کہ رحمتِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کچھ عطافرمادیں  وہ لے لیا جائے چاہے وہ قول کی صورت میں  ہویاکسی اور صورت میں  ۔ ’’ خُذُوْہُ ‘‘  اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمان پر عمل ضروری ہے۔ایک جگہ فرمای


وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ (۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ (۴)   (النجم: ۳-


ترجمۂ کنزالایمان: ’’ اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں  کرتے وہ تو نہیں  مگر وحی جو انہیں  کی جاتی ہے‘


          لہذا معلوم ہواکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا احکامِ شریعت کے بارے میں  فرمان وحیِ الہی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے رب کا کوئی حکم جاری فرمانا۔ ایک جگہ یوں  فرمای


مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ


ترجمۂ کنزالایمان:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نےاللہ کا حکم ما


          سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو رب نے اپنی اطاعت فرمایا اور ہر عاقل جانتا ہے کہ اطاعت حکم  (قول) کی ہواکرتی ہے تومعلوم ہواکہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان  (حدیث)  حجتِ شرعی ہے کہ جس کی اطاعت کو رب نے اپنی اطاعت فرمایا۔حاصل یہ کہ حدیث حجت شرعی ہے اور اس کا حجت ہونا قرآن سے ثابت ہ


 (۳) …تَدْوِینِ حدیث 


          تدوین حدیث (حدیث کو جمع کرنے) کا سلسلہ عہدِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے لے کر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا۔اگرچہ ابتدائی دور میں  سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو احادیث لکھنے سے منع فرمادیاتھا کیونکہ ابتدائی دور آیاتِ قرآنیہ کے نزول کا دور تھا لہذا اس دور میں  صرف قرآن کریم کوہی ضبطِ تحریر میں  لانا اہم ترین کام تھا، اور سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ احادیث لکھنے سے منع فرماتے تھے تاکہ قرآن اور احادیث میں  التباس نہ ہوجائے چنانچہ ابتداء آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمای


’’  لاَ تَکْتُبُوْا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ  


میرا کلام نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے سن کر لکھا وہ اسے مٹاد


 (صحیح مسلم شریف ، کتاب الزہد، جلد۲، ص۴۱


          لیکن جوں  ہی نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہوااور التباس کے خطرات باقی نہ رہے توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔چنانچہ امام ترمذی حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت کرتے ہیں


  ’’ کَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلٰی رَسُوْلِاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُہٗ وَلَا یَحْفَظُہُ فَشَکَ


 ترجمہ : ’’ انصار میں  سے ایک آدمی حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرہوتاپھرآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشادات سنتااور خوش ہوتااور ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ  ’’ اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ اِلَی الْخَطِّ


انہیں یاد نہ رکھ سکتا تو اس نے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لواور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے لکھنے کا اشارہ فرمایا‘‘۔


          ایک اور حدیث نقل کرتے ہوئے امام ترمذی فرماتے ہیں ،صحابۂ کرام حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بیٹھ کر احادیث لکھا کرتے تھے،ان میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:


 ’’ مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَکْثَرُ حَدِیْثاً مِنِّیْ اِلاَّ مَا کَانَ مِنْ عَبْدِاللہ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ ‘‘


ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سواء صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں کیونکہ وہ احادیث لکھاکرتے تھے اورمیں نہیں لکھتاتھا۔ (جامع ترمذی)


          لہذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث کا سلسلہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے عہد مبارک ہی سے جاری ہوااور سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بذات خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہکرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی طرح تدوین حدیث کا یہ سلسلہ تابعین کے دور میں بھی جاری رہا، ان تابعین میں حضرت سعید بن مسیب، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد بن جبیرمکی، حضرت قتادہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے جلیل القدر تابعین بھی شامل ہیں ۔ ( رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)


          تابعین کے بعد تیسری صدی ہجری میں ان مشاہیر علما ء نے تدوین حدیث کا کام انجام دیا۔علی بن المدینی، یحیی بن معین، ابوبکرابن ابی شیبہ، ابوزرعہ رازی،ابوحاتم رازی، محمد بن جریر طبری، ابن خزیمہ، اور اسحاق بن راہویہ۔


          ان کے بعد امام بخاری ومسلم اور دیگر کئی محدثین نے تدوین حدیث کا کام کیا۔امام بخاری ومسلم، علی بن المدینی ، یحیی بن معین اور اسحاق بن راہویہ کے شاگردوں میں ہیں ۔ (اللہ تعالٰی کی ان پر رحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمین) ۔


          یاد رہے کہ ہر بات جو رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب کر دی جائے حدیث نہیں ہو سکتی بلکہ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اس کی سند دیکھی جاتی ہے یعنی اس حدیث کے راویوں (بیان کرنے والوں ) کے حالات و صفات و دیگر لوازمات دیکھے جاتے ہیں ،مثلاان کا ایک دوسرے سے سماع (حدیث سننا) ثابت ہے بھی یا نہیں اور آیا یہ سلسلہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک متصل ہے یا نہیں ۔راویوں کے اسی سلسلے کو سند یا اسناد کہتے ہیں چونکہ اس سے حدیث کی صحت و سقم یعنی اس کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا پتا چلتا ہے اسی لئے علماء و محدثین نے اس اہم ترین موضوع کے لئے باقاعدہ ایک مستقل فن ’’ علم اصول حدیث ‘‘ مدون فرمایا جس کے ذریعے انھوں نے احادیثِ صحیحہ و غیرِ صحیحہ کوالگ الگ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا۔ (اللہ عَزَّوَجَل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو) ۔


          علم اصول حدیث میں اگرچہ سند ومتن دونوں سے بحث کی جاتی ہے لیکن متنِ حدیث کے مقابلے میں سندِ حدیث پر بہت زیادہ کلام کیا جاتا ہے لہذا ہم یہاں سند ِحدیث کی اہمیت بیان کرتے ہیں ۔


۴۔سندِحدیث کی اہمیت:


 ٭حضرت عبداللہ ابن مبارکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ : ’’ الِاسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ لَوْ لَا الِاسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاء مَا شَاء یعنی اسناد دین کا حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتی توجس کے دل میں جو آتا کہتا۔ ‘‘ (فتح المغیث)

٭انہی سے مروی ہے کہ:   ’’ مَثَلَ الَّذِيْ یَطْلُبُ أََمْرَ دِیْنِہٖ بِلَا اِسْنَادٍ کَمَثَلِ الَّذِيْ یَرْتَقِيْ  السَّطْحَ بِلَا سُلَّمیعنی اس شخص کی مثا ل جو اپنے کسی امر دینی کو بلا اسناد طلب کرتا ہے اس کی طرح ہے جو سیڑھی کے بغیر چھت پر چڑھنے میں  لگا ہو۔ ‘‘

…انہی سے منقول ہے کہ:بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ:  یَعْنِي الِاسْنَادَ

یعنی ہمارے او ر دیگر لوگوں  کے درمیان قابل اعتماد چیز اسناد ہے ۔ (فتح المغیث و مقدمۃ مسلم)

اور امام شافعی رَحِمَہُ اللہِ الْکَافی سے منقول ہے کہ: ’’ مَثَلَ الَّذِيْ یَطْلُبُ الْحَدِیْثَ بِلا اِسْنَادٍ کَمَثَلِ حَاطِبِ لَیْلٍ یعنی اس شخص کی مثال جو بلا سند حدیث کو طلب کرتا ہے اس کی مانند ہے جو اندھیری رات میں  لکڑیاں  تلاش کرتا ہے (مطلب یہ ہے کہ جو شخص اندھیری رات میں  لکڑیاں  تلاش کرتا ہے تو پھر ان لکڑیوں کے علاوہ دیگر چیزیں  بھی اٹھالیتا ہے یعنی اندھیرے کی وجہ سے وہ امتیاز نہیں  کرپاتاکہ میں  لکڑیاں  اٹھا رہا ہوں یا کوئی اور چیز۔یہی مثال اس شخص کی ہے جو حدیث میں  کلام کو خلط ملط کرکے پیش کرتا ہے ) ۔ (فتح المغیث)

اور حضرت سفیان ثوریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے منقول ہے کہ: ’’ الِاسْنَادُ سِلاَحُ الْمُؤْمِنِ فَاِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ سِلاَحٌ فَبِأَيِّ شَیٍٔ یُقَاتِلُیعنی اسناد مؤمن کا ہتھیار ہے اگر اس کے پاس ہتھیار ہی نہیں  ہو گا تو وہ کس چیز کی مدد سے لڑے گا۔ ‘‘  (فتح المغیث)

بقیہ نے کہا کہ میں  نے حضرت حماد بن زید کو چند احادیث سنائیں  تو انھوں  نے فرمایا کہ : ’’ مَا أَجْوَدَہَا لَوْ کَانَ لَہَا أَجْنِحَۃٌ یَعْنِيْ الأَسَانِیْدَ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان احادیث کے پرو بازو بھی ہوتے یعنی اسانید کے ساتھ ذکر کی جاتیں ۔            (فتح المغیث)

اور مطر نےاللہ تعالٰی کے اس فرمان { اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ }  (الاحقاف: ۴)  کے بارے میں  کہا کہ اس سے مراد اسناد ِحدیث ہے۔           (فتح المغیث)

جب امام زہری کو کسی اسحاق بن ابو فروہ نامی شخص نے بغیر اسناد کے چند احادیث سنائیں  تو آپ نے اس سے فرمایا: ’’ قَاتَلَکَ اللہ یَا ابْنَ أَبِيْ فَرْوَۃَ!  مَا أَجْرَأَکَ عَلَی اللہ أَنْ لَا تُسْنِدَ حَدِیْثَکَ، تُحَدِّثُنَا بِأحَادِیْثَ لَیْسَ لَھَا خُطُمٌ وَلَا أَزِمَّۃٌ یعنی اے ابن ابو فروہ! تجھےاللہ تباہ کرے تجھے کس چیز نےاللہ پر جری کردیا ہے ؟کہ تیری حدیث کی کوئی سند نہیں  ،تو ہم سے ایسی حدیثیں  بیان کرتا ہے جن کی نکیل ہے نہ لگام۔ (معرفۃ علوم الحدیث)


نوٹ:

      خطیب کا قول ہے :   ’’ وَأَمَّا أَخْبَارُ الصَّالِحِیْنَ وَحِکَایَاتُ الزُّہَّادِ وَالْمُتَعَبِّدِیْنَ وَمَوَاعِظُ الْبُلَغَائِ وَحِکَمُ الأُدَبَائِ فَالْأَسَانِیْدُ زِیْنَۃٌ لَہَا وَلَیْسَتْ شَرْطاً فِيْ تَأْدِیَتِہَا ‘‘ مفہوم یہ ہے کہ: صالحین و زاہدین و بزرگان دین کے فضائل کے قصوں  کے لئے سند شرط و ضروری نہیں  ہاں  ایک طرح کی زینت و اضافی خوبی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے