محکم و متشابہ آیات کی تعریف



 محکم متشابہ آیات کی تعریف

 قرآن پاک میں دو طرح کی آیات ہیں :

(1)… مُحْکَمْ، یعنی جن کے معانی میں کوئی اِشْتِبَاہ نہیں بلکہ قرآن سمجھنے کی اَہلیت رکھنے والے کو آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔

(2)… مُتَشَابِہْ، یعنی  وہ آیات جن کے ظاہری معنیٰ یا تو سمجھ ہی نہیں آتے جیسے حروفِ مقطعات ،یعنی بعض سورتوں کے شروع میں آنے والے حروف جیسے سورۂ بقرہ کے شروع میں ’’الٓمّٓ‘‘ہے اور یا متشابہ وہ ہے جس کے ظاہری معنیٰ سمجھ تو آتےہیں لیکن وہ مراد نہیں ہوتے جیسے اللہ تعالیٰ کے ’’یَدْ‘‘یعنی ’’ہاتھ‘‘ اور ’’وَجْہٌ‘‘یعنی ’’چہرے ‘‘ والی آیات ۔ ان کے ظاہری معنیٰ معلوم تو ہیں لیکن یہ مراد نہیں ، جبکہ ان کے حقیقی مرادی معنیٰ میں کئی احتمال ہوسکتے ہیں اور ان میں سے کون سا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے یا وہ جسے اللہ تعالیٰ اس کاعلم دے۔پہلی قسم یعنی مُحْکَمْ کے بارے میں فرمایا کہ’’ یہ کتاب کی اصل ہیں ، یعنی احکام شرعیہ میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور حلال و حرام میں انہیں پر عمل کیا جاتا ہے ۔

کسی کومتشابہات کا علم عطا ہوا یا نہیں :

           اللہ تعالیٰ کسی کو متشابہات کا علم عطا فرماتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں محققین علماء نے فرمایا ہے کہ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان اس سے اَرفَع و اعلیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی اس کا علم عطا نہ فرمائے بلکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صدقے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمت کے اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو بھی اس کا علم ملتا ہے۔

(صراط الجنان سورہ آل عمران آیت 7)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے