قربانی کا نصاب

قربانی کا نصاب


قُربانی واجِب ہونے کیلئے کتنا مال ہونا چاہئے      

ہربالِغ ، مُقیم، مسلمان مردو عورت ، مالکِ نصاب پر قربانی واجِب ہے ۔ (عالمگیری ج۵ص۲۹۲)مالکِ نصاب ہونے سے مُراد یہ ہے کہ اُس شخص کے پاس ساڑھے باوَن تولے چاندی یا اُتنی مالیَّت کی رقم یا اتنی مالیَّت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اور اُس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ یا بندوں کا اِتنا قَرضہ نہ ہو جسے ادا کر کے ذِکر کردہ نصاب باقی نہ رہے ۔ فُقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : حاجتِ اَصلِیّہ (یعنی ضَروریاتِ زندگی) سے مُراد وہ چیزیں ہیں جن کی عُمُوماً انسان کو ضَرورت ہوتی ہے اور ان کے بِغیر گزراوقات میں شدید تنگی ودُشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے ، سُواری ، علمِ دین سے متعلِّق کتابیں اور پیشے سے متعلِّق اَوزار وغیرہ ۔


 (الھدایۃ ج۱ص۹۶)اگر ’’حاجتِ اَصلِیَّہ ‘‘کی تعریف پیشِ نظر رکھی جائے تو بخوبی معلوم ہو گا کہ ’’ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ‘‘ایسی ہیں کہ جو حاجتِ اَصلِیَّہ میں داخِل نہیں چُنانچہ اگر ان کی قیمت ’’ ساڑھے باوَن تولہ چاندی ‘‘ کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہو گی ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے سُوال کیا گیا کہ ’’ اگر زید کے پاس مکانِ سُکُونت ( یعنی رہائشی مکان ) کے علاوہ دو ایک اور (یعنی مزید) ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟ ‘‘الجواب : واجب ہے ، جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے حاجتِ اَصلِیَّہ سے زائد ہو ، مل کر چھپَّن روپے ( یعنی اتنی مالیَّت کہ جو ساڑھے باوَن تولے چاندی کے برابر ہو ) کی قیمت کو پہنچے ، اگرچِہ ان مکانوں کو کرائے پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو بلکہ ( اگر ) مکانِ سُکُونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصّہ اس( شخص ) کے جاڑ ے (یعنی سردی اور) گرمی (دونوں ) کی سُکُونت (رہائش)کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصّہ حاجت سے زیادہ ہو اور اس ( دوسرے حصّے ) کی قیمت تنہا یا اِسی قسم کے ( حاجتِ اَصلِیَّہ ) سے زائد مال سے مل کر نصاب تک پہنچے ، جب بھی قربانی واجب ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۳۶۱)   


وَقت کے اندرشرائط پائے گئے تو ہی قُربانی واجِب ہو گی


          مال اور دیگر شرائط قُربانی کے ایّام ( یعنی10ذُوالْحِجّۃِ الْحرامکی صبحِ صادِق سے لیکر 12ذُوالحِجّۃِ الْحرامکے غروبِ آفتاب تک)میں پائے جائیں جبھی قربانی واجِب ہو گی ۔ اِس کا مسئلہ بیان کرتے ہوئیصَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’بہارِ شریعت ‘‘میں فرماتے ہیں : یہ ضَرورنہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے ، اس کے لیے گنجائش ہے کہ پورے وَقْت میں جب چاہے کرے لہٰذا اگر ابتدائے وَقت میں (10ذُوالْحِجّہ کی صبح ) اس کا اَہْل نہ تھا وُجُوب کے شرائط نہیں پائے جاتے تھے اور آخِر وَقْت میں (یعنی12ذُوالحِجّہکو غروبِ آفتاب سے پہلے ) اَہْل ہوگیا یعنی وُجُوب کے شرائط پائے گئے تو اُس پر واجِب ہوگئی اور اگر ابتدائے وَقْت میں واجِب تھی اور ابھی (قربانی ) کی نہیں اور آخِر وَقْت میں شرائط جاتے رہے تو (قربانی )واجِب نہ رہی ۔ (عالمگیری ج۵ص۲۹۳) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے