قُربانی کرنے والے بال ناخُن نہ کاٹیں
مُفسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَنّان ایک حدیثِ پاک( جب عَشَرہ آ جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال و کھال کو بالکل ہاتھ نہ لگائے ) کے تحت فرماتے ہیں : ’’ یعنی جو امیر وُجُوباً یا فقیر نَفلاً قُربانی کا ارادہ کرے وہ ذُوالحِجّۃِ الحرامکا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخُن بال اور(اپنے بدن کی) مُردار کھال وغیرہ نہ کاٹے نہ کٹوائے تا کہ حاجِیوں سے قَدْرے (یعنی تھوڑی) مُشابَہَت ہو جائے کہ وہ لوگ اِحرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور تا کہ قربانی ہربال، ناخُن (کیلئے جہنَّم سے آزادی) کافِدیہ بن جائے ۔ یہ حکم اِسْتِحْبابِی ہے وُجُوبی نہیں ( یعنی واجِب نہیں ، مُسْتَحَب ہے اور حتَّی الامکان مُسْتَحَب پر بھی عمل کرنا چاہئے البتَّہ کسی نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو گناہ بھی نہیں اور ایسا کرنے سے قربانی میں خلل بھی نہیں آتا، قربانی دُرُست ہوجاتی ہے ) لہٰذا قربانی والے کا حجامت نہ کرانا بہتر ہے لازِم نہیں ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اچّھوں کی مُشابَہَت(یعنی نقل) بھی اچّھی ہے ۔ ‘‘
غریبوں کی قُربانی
مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمزید فرماتے ہیں : ’’ بلکہ جو قربانی نہ کر سکے وہ بھی اس عَشَرَہ (یعنی ذُوالحِجّۃِ الحرام کے ابتِدائی دس ایّام)میں حجامت نہ کرائے ، بَقَرہ عید کے دن بعد ِنَمازِ عیدحجامت کرائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ (قربانی کا )ثواب پائے گا ۔ ‘‘(مِراٰۃُالمناجیحج۲ص۳۷۰)
مُستَحَب کام کیلئے گناہ کی اجازت نہیں
یاد رہے ! چالیس دن کے اندر اندر ناخُن تراشنا ، بغلوں اور ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا ضَروری ہے 40دن سے زیادہ تاخیر گناہ ہے چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : یہ (یعنی ذُوالحِجّہ کے ابتِدائی دس دن میں ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کا)حکم صرف اِسْتِحْبابِی ہے ، کرے تو بہترہے نہ کرے تو مُضایَقہ نہیں ، نہ اس کو حکم عُدُولی(یعنی نافرمانی) کہہ سکتے ہیں ، نہ قربانی میں نَقص (یعنی خامی) آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عُذر کے سبب خواہ بِلا عُذر ناخُن نہ تراشے ہوں کہ چاند ذِی الْحِجّہ کا ہوگیاتو وہ اگر چِہ قربانی کا اراد ہ رکھتا ہو اِسمُسْتَحَب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن تراشوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے ۔ فعلِ مُسْتَحَب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا ۔ (مُلَخَّص ازفتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص۳۵۳ ۔ ۳۵۴)
0 تبصرے