واقعۂ کربلا| شہادت امام حسن و حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما

واقعہ کربلا شہادت امام حسن و حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما 

  یزیدپلیدکی تخت نشینی اورقیامت کے سامان


         ہجرت کاساٹھواں سال اوررجب کامہینہ کچھ ایسا دل دکھانے والاسامان اپنے

ساتھ لایا،جس کانظارہ اسلامی دنیاکی آنکھوں کو ناچاراُس طرف کھینچتا ہے،جہاں کلیجا نوچنے والی آفتوں ،بے چین کردینے والی تکلیفوں نے دینداردِلوں کے بے قرارکرنے اورخداپرست طبیعتوں کوبے تاب بنانے کے لئے حسرت وبے کسی کاسامان جمع کیا ہے۔ یزیدپلیدکاتختِ سلطنت کواپنے ناپاک قدم سے گندہ کرنا اُن ناقابلِ برداشت مصیبتوں کی تمہیدہے جن کوبیان کرتے کلیجا منہ کوآتااوردل ایک غیرمعمولی بے قراری کے ساتھ پہلومیں پھڑک جاتاہے ۔اس مردودنے اپنی حکومت کی مضبوطی ، اپنی ذلیل عزت کی ترقی اس امرمیں منحصرسمجھی کہ اہلِ بیتِ کرام کے مقدس وبے گناہ خون سے اپنی ناپاک تلوار رنگے ۔اس جہنمی کی نیت بدلتے ہی زمانے کی ہوانے پلٹے کھائے اورزہریلے جھونکے آئے کہ جاوداں بہاروں کے پاک گریباں ،بے خزاں پھولوں ، نوشگفتہ گلوں کے غم میں چاک ہوئے، مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہری بھری لہلہاتی پھلواڑی کے سہانے نازک پھول مرجھا مرجھا کرطرازِ دامنِ خاک ہوئے ۔


{امامِ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت اور بھائی کو نصیحت}


          اُس خبیث کاپہلا حملہ سیدنا امام حسن پر چلا۔ جعدہ زوجہ امام عالی مقام کو بہکایا کہ اگر تو زہر دے کر امام کا کام تمام کر دے گی تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔


وہ شقیہ بادشاہ بیگم بننے کے لالچ میں شاہان جنت کا ساتھ چھوڑ کر ،سلطنت عقبیٰ سے منہ موڑ کرجہنم کی راہ پر ہولی ۔کئی بار زہر دیاکچھ اثر نہ ہوا،پھرتو جی کھول کر اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرے اور امام جنت مقام کو سخت تیز زہر دیا یہاں تک کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے جگرپارے کے اعضائے باطنی پارہ پارہ ہو کر نکلنے لگے۔


          یہ بے چین کر نے والی خبر سن کرحضرت امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے پیارے بھائی کے پاس حاضرہوئے ۔سرہانے بیٹھ کرگزارش کی: ’’حضرت کوکس نے زہردیا؟ فرمایا ’’اگر وہ ہے جومیرے خیال میں ہے تواللہ بڑابدلہ لینے والا ہے،اور اگرنہیں ، تومیں بے گناہ سے عوض نہیں چاہتا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء،الحسن بن علی،الحدیث۱۴۳۸،ج۲،ص۴۷ملخصاً)    ایک روایت میں ہے،فرمایا:’’بھائی!لوگ ہم سے یہ امیدرکھتے ہیں کہ روز قیامت ہم ان کی شفاعت فرماکرکام آئیں نہ یہ کہ ان کے ساتھ غضب اورانتقام کوکام میں لائیں ‘‘۔        ؎


واہ رے حلم کہ اپنا تو جگر ٹکڑے ہو


پھر بھی ایذائے ستم گرکے روا دار نہیں


          پھر جانے والے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے آنے والے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کویوں وصیت فرمائی:’’حسین دیکھو سفیہان نِ کوفہ سے ڈرتے رہنا ،مباداوہ تمہیں باتوں میں لے کربلائیں اوروقت پر چھوڑ دیں ،پھرپچھتاؤ گے اوربچاؤ کاوقت گزرجائے گا۔‘‘


          بے شک امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ وصیت موتیوں میں تولنے کے قابل اوردل پرلکھ لینے کے لائق تھی،مگراس ہونے والے واقعے کوکون روک سکتا جسے قدرت نے مدتوں پہلے سے مشہورکررکھاتھا۔


{امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی شہادت کی خبر واقعہ کربلا سے پہلے ہی مشہور تھی}


          حضورسرورِعالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت شریفہ سے تین سوبرس پیش تریہ شعرایک پتھرپرلکھاملا:۔       ؎


اَ   تَرْجُوْ  اُمَّۃٌ    قَتَلَتْ  حُسَیْناً


شَفَاعَۃَ  جَدِّہٖ  یَوْمَ  الْحِسَابِ


کیا حسین کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ روزِقیامت اُس کے نانا صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت پائیں ؟


                    یہی شعر ارضِ روم کے ایک گرجا میں لکھاپایا گیا اور لکھنے والا معلوم نہ ہوا۔


          کئی حدیثوں میں ہے ،حضور سرورِعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے کاشانہ میں تشریف فرماتھے ،ایک فرشتہ کہ پہلے کبھی حاضر نہ ہواتھا اللہ تبارک وتعالیٰ سے حاضری کی اجازت لے کر آستان بوس ہوا،حضورپرنور  صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ارشادفرمایا:دروازے کی نگہبانی رکھو، کوئی آنے نہ پائے ،اتنے میں سیدناامامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  دروازہ کھول کر حاضر ِخدمت ہوئے اور کُودکر حضور پرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمکی گودمیں جابیٹھے ،حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم پیار فرمانے لگے ،فرشتے نے عرض کی: ’’حضورانہیں چاہتے ہیں ؟ فرمایا:  ہاں ! عرض کی:’’ وہ وقت قریب آتاہے کہ حضور کی امت انہیں شہید کرے گی اور حضور چاہیں تو وہ زمین حضور کو دکھا دوں جہاں یہ شہید کئے جائیں گے ۔ پھرسرخ مٹی اورایک روایت میں ہے ریت، ایک میں ہے کنکریاں ،حاضرکیں۔حضورعلیہ الصلاۃو السلام نے سونگھ کر فرمایا: ’’رِیْحُ کَرْبٍ وَّبَلاَء‘‘بے چینی اوربلا کی بُوآتی ہے ،پھرام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا کو وہ مٹی عطاہوئی اور ارشاد ہوا: ’’جب یہ خون ہوجائے توجاننا کہ حسین شہیدہوا‘‘انہوں نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھ چھوڑی ۔ اُم المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں :’’ میں کہا کرتی جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی کیسی سختی کادن ہوگا۔‘‘ (المعجم الکبیر،الحدیث ۲۸۱۷،۲۸۱۸،۲۸۱۹،ج۳،ص۱۰۸) 


          امیر المؤمنین مولیٰ علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ صفین کو جاتے ہوئے زمینِ کربلا پر گزرے، نام پوچھا لوگوں نے کہا:’’کربلا!‘‘یہاں تک روئے کہ زمین آنسوؤں سے ترہوگئی پھرفرمایا:میں خدمتِ اقدس حضور سیدِعالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم میں حاضر ہوا، حضور کوروتا پایا،سبب پوچھا ،فرمایا:’’ ابھی جبریل کہہ گئے ہیں کہ میرا بیٹا حسین فرات کے کنارے کربلا میں قتل کیاجائے گاپھرجبریل نے وہاں کی مٹی مجھے سونگھائی مجھ سے ضبط نہ ہوسکااورآنکھیں بہہ نکلیں۔‘‘


          ایک روایت میں ہے ،مولیٰ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ  اس مقام سے گزرے جہاں اب امامِ مظلوم کی قبرمبارک ہے ،فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بٹھائی جائیں گی، یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے ،اوریہاں ان کے خون گریں گے ۔آلِ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورضی اللہ تعالٰی عنہمکے کچھ نوجوان اس میدان میں قتل ہوں گے جن پر زمین وآسماں روئیں گے ۔(دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی،ج۲،ص۱۴۷) اللھم صل علی سیدنا محمد و علی الہ واصحٰبہ اجمعین


امام مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ   سے مدینہ چھوٹتا ہے


          امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا کام تمام کرکے جب یزید پلید نے اپنے ناشاد دل کو خوش کرلیا ،اب اس شقی کو امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  یادآئے ،مدینہ کے صوبہ دارولید کو خط لکھا کہ حسین اور عبداللہ ا بن عمر اور عبد اللہ ا بن زبیر(رضی اللہ تعالٰی عنہم)سے بیعت کے لئے کہے اور مہلت نہ دے ۔ابنِ عمر ایک مسجد میں بیٹھنے والے آدمی ہیں اورابنِ زبیر جب تک موقع نہ پائیں گے خاموش رہیں گے ،ہاں حسین(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیعت لینی سب سے زیادہ ضروری ہے کہ یہ شیر اور شیر کا بیٹا موقع کا انتظار نہ کرے گا ۔ 


          صوبہ دار نے خط پڑھ کر پیامی بھیجا،امام نے فرمایا:’’چلوآتے ہیں ‘‘۔ پھر عبداللہ ابن زبیر سے فرمایا:’’دربار کا وقت نہیں ، بے وقت بلانے سے معلوم ہوتا ہے کہ سردار نے وفات پائی ،ہمیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ موت کی خبر مشہور ہونے سے پہلے یزید کی بیعت ہم سے لی جائے ‘‘۔ ابن زبیر نے عرض کی:’’ میرابھی یہی خیال ہے ایسی حالت میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ فرمایا: ’’میں اپنے جوان جمع کر کے جاتا ہوں ، ساتھیوں کودروازے پر بٹھا کر اس کے پاس جاؤں گا۔‘‘ ابن زبیر نے کہا:’’مجھے اس کی جانب سے اندیشہ ہے۔‘‘ فرمایا:’’وہ میرا کچھ نہیں کرسکتا۔ ‘‘پھر اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے ،ہمراہیوں کو ہدایت کی: ’’جب میں بلاؤں یا میری آوازبلند ہوتے سنو ،اندرچلے آنا اورجب تک میں واپس نہ آؤں کہیں ہل کر نہ جانا۔‘‘یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ،ولید کے پاس مروان کو بیٹھا پایا ،سلام علیک کر کے تشریف رکھی، ولید نے خط پڑھ کر سنایا وہی مضمون پایا جو حضور کے خیال شریف میں آیا تھا ۔ بیعت کا حال سن کر ارشاد ہوا:’’مجھ جیسے چھپ کربیعت نہیں کرتے ،سب کو جمع کرو ، بیعت لو، پھر ہم سے کہو ‘‘ ولیدنے بنظرِعافیت پسندی عرض کی :’’بہتر!تشریف لے جائیے۔‘‘ مروان بولا: ’’اگر اس وقت انہیں چھوڑ دے گا اور بیعت نہ لے گا توجب تک بہت سی جانوں کا خون نہ ہو جائے، ایساوقت ہاتھ نہ آئے گا ،ابھی روک لے بیعت کر لیں تو خیر ورنہ گردن ماردے۔ ‘‘یہ سن کر امام رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا: ’’ابن الزرقاء!تُو یا وہ ،کیا مجھے قتل کر سکتا ہے ؟خداکی قسم!تُونے جھوٹ کہا اورپاجی پن کی بات کی ۔‘‘ یہ فرماکر واپس تشریف لائے۔


          مروان نے ولیدسے کہا:’’خداکی قسم! اب ایساموقع نہ ملے گا ۔‘‘ ولیدبولا: ’’مجھے پسند نہیں کہ بیعت نہ کرنے پرحسینرضی اللہ تعالٰی عنہ  کو قتل کروں ،مجھے تمام جہاں کے ملک ومال کے بدلے میں بھی حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قتل منظورنہیں ،میرے نزدیک حسین کے خون کا جس شخص سے مطالبہ ہو گا وہ قیامت کے دن خدائے قہار کے سامنے ہلکی تول والا ہے۔‘‘ مروان نے منافقانہ طورپرکہہ دیا:’’ تُونے ٹھیک کہا ۔ ‘‘  (الکامل فی التاریخ،ذکر بیعت یزید،ج۳،ص۳۷۷ملخصاً)


           دوبارہ آدمی آیا ،فرمایا:’’ صبح ہونے دو۔‘‘ اور قصد فرمالیا کہ رات میں مکہ کے ارادے سے مع اہل وعیال سفرفرمایا جائے گا۔


          یہ رات امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے جدِکریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کے روضۂ منورہ میں گزاری کہ آخرتوفراق کی ٹھہرتی ہے ،چلتے وقت تو اپنے جدِکریم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس گودسے لپٹ لیں پھرخداجانے زندگی میں ایساوقت ملے یا نہ ملے ۔امام آرام میں تھے کہ خواب دیکھا، حضورپرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف شریف لائے ہیں اورامام کو کلیجے سے لگا کرفرماتے ہیں :’’حسین! وہ وقت قریب آتاہے کہ تم پیاسے شہیدکئے جاؤ اور جنت میں شہیدوں کے بڑے درجے ہیں۔‘‘یہ دیکھ کرآنکھ کھل گئی، اُٹھے اور روضۂ مقدس کے سامنے رخصت ہونے کو حاضر ہوئے۔


          مسلمانو!حیاتِ دنیاوی میں امام کی یہ حاضری پچھلی حاضری ہے، صلوۃ وسلام عرض کرنے کے بعدسرجھکا کرکھڑے ہوگئے ہیں ،غمِ فراق کلیجے میں چٹکیاں لے رہا ہے ،آنکھوں سے لگاتارآنسوجاری ہیں ،رقت کے جوش نے جسمِ مبارک میں رعشہ پیداکردیاہے ،بے قراریوں نے محشربرپاکررکھا ہے ،دل کہتا ہے سرجائے ،مگریہاں سے قدم نہ اٹھائیے، صبح کے کھٹکے کاتقاضاہے جلدتشریف لے جائیے ،دو قدم جاتے ہیں اورپھر پلٹ آتے ہیں۔حبِ وطن قدموں پر لوٹتی ہے کہ کہاں جاتے ہو؟غربت دامن کھینچتی ہے کیوں دیر لگاتے ہو ؟شوق کی تمنا ہے کہ عمربھرنہ جائیں ، مجبوریوں کاتقاضا ہے دم بھرنہ ٹھہرنے پائیں۔


          شعبان کی چوتھی رات کے تین پہرگزرچکے ہیں اورپچھلے کے نرم نرم جھونکے سونے والوں کو تھپک تھپک کر سلارہے ہیں ،ستاروں کے سنہرے رنگ  کچھ سپیدی ظاہرہوچلی ہے ،اندھیری رات کی تاریکی اپنادامن سمیٹناچاہتی ہے تمام شہر میں سناٹاہے ،نہ کسی بولنے والے کی آوازکان تک پہنچتی ہے ،نہ کسی چلنے والے کی پہچل سنائی دیتی ہے ،شہربھرکے دروازے بند ہیں ،ہاں خاندانِ نبوت کے مکانوں میں اس وقت جاگ ہو رہی ہے اورسامانِ سفر درست کیا جارہا ہے ، ضرورت کی چیزیں باہرنکالی گئی ہیں ،سواریاں دروازوں پرتیارکھڑی ہیں ،محمل کس گئے ہیں ،پردے کا انتظام ہوچکاہے،ادھرامام کے بیٹے،بھائی،بھتیجے،گھروالے سوارہورہے ہیں ادھر امام رضی اللہ تعالٰی عنہمسجدنبوی سے باہرتشریف لائے ہیں ، محرابوں نے سرجھکا کرتسلیم کی،میناروں نے کھڑے ہو کر تعظیم دی،قافلہ سالارکے تشریف لاتے ہی نبی زادوں کاقافلہ روانہ ہو گیاہے ۔


          مدینہ میں اہلِ بیت رضی اللہ تعالٰی عنہمسے حضرت صغریٰ امامِ مظلوم کی صاحبزادی اور جناب محمد بن حنفیہ مولیٰ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹے باقی رہ گئے ۔


          اللہ اکبر! ایک وہ دن تھاکہ حضورسرورِعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کی ایذا دہی اورتکلیف رسانی کی وجہ سے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی۔ مدینہ والوں نے جب یہ خبر سنی ،دلوں میں مسرت آمیزاُمنگوں نے جوش مارا اورآنکھوں میں شادیٔ عید کا نقشہ کھنچ گیا ، آمدآمدکاانتظارلوگوں کوآبادی سے نکال کرپہاڑوں پرلے جاتا، منتظر آنکھیں مکہ کی راہ کو جہاں تک ان کی نظر پہنچتی ،ٹکٹکی باندھ کرتکتیں ،اورمشتاق دل ہرآنے والے کودورسے دیکھ کرچونک پڑتے ،جب آفتاب گرم ہوجاتا، گھروں پر واپس آتے ۔ اسی کیفیت میں کئی دن گزرگئے ،ایک دن اَورروز کی طرح وقت بے وقت ہو گیا تھا اورانتظارکرنے والے حسرتوں کو سمجھاتے ،تمناؤں کوتسکین دیتے پلٹ چکے تھے ،کہ ایک یہودی نے بلندی سے آوازدی’’اے راہ دیکھنے والو!پلٹو!تمہارا مقصودبرآیا اورتمہارا مطلب پوراہوا۔‘‘اس صداکے سنتے ہی وہ آنکھیں جن پرابھی حسرت آمیز حیرت چھاگئی تھی ،اشکِ شادی برسا چلیں ،وہ دل جو مایوسی سے مرجھا گئے تھے ،تازگی کے ساتھ جوش مارنے لگے ،بے قرارانہ پیشوائی کوبڑھے ،پروانہ وارقربان ہوتے آبادی تک لائے ،اب کیا تھاخوشی کی گھڑی آئی ،منہ مانگی مرادپائی، گھرگھر سے نغماتِ شادی کی آوازیں بلند ہوئیں،پردہ نشین لڑکیاں دف بجاتی، خوشی کے لہجوں میں مبارک بادکے گیت گاتی نکل آئیں :


طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا                                  مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ


وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا                                    مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ


    بنی نجار کی لڑکیاں گلی کوچوں میں اس شعرسے اظہارِ مسرت کرتی ہوئی ظاہر ہوئیں :


نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ


یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَار


غرض مسرت کا جوش تھا، درودیوار سے خوشی ٹپکی پڑتی تھی ،ایک آج کا دن ہے کہ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مدینہ چھوٹتا ہے،مدینہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب راحتیں، تمام آسایشیں ،ایک ایک کر کے رخصت ہوتی اور خیرباد کہتی ہیں۔ یہ سب درکنار، ناز اٹھانے والی ماں کاپڑوس،ماں جائے بھائی کاہمسایہ اور سب سے بڑھ کر امام رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اپنا بیٹا قربان کردینے والے جدِکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کاقرب ،کیا یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی طرف سے آسانی کے ساتھ آنکھیں پھیر لی جائیں ؟آسانی سےآنکھیں پھیرنی کیسی!اگرامام رضی اللہ تعالٰی عنہ کومدینہ نہ چھوڑنے پرقتل کردیا جاتا توقتل ہوجانا منظورفرماتے اورمدینہ سے باہر پاؤں نہ نکالتے ،مگر اس مجبوری کا کیا علاج کہ امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ناقہ کوقضا، مہارپکڑے اس میدان کی جانب لئے جاتی ہے، جہاں قسمت نے پردیسیوں کے قتل ہونے،پیاسوں کے شہیدکئے جانے کا سامان جمع کیاہے۔مدینے کی زمین جس پرآپ گھٹنوں چلے جس نے آپ کی بچپن کی بہاریں دیکھیں ،جس پرآپ کی جوانی کی کرامتیں ظاہر ہوئیں ، اپنے سرپر خاکِ حسرت ڈالتی اورپردیس جانے والے کے پیارے پیارے نازک پاؤں سے لپٹ لپٹ کر زبانِ حال سے عرض کر رہی ہے کہ اے فاطمہرضی اللہ عنہاکی گودکے سنگھار!کلیجے کی ٹیک !زندگی کی بہار!کہاں کا ارادہ فرما دیا؟ وہ کون سی سرزمین ہے جسے یہ عزت والے پاؤں جومیری آنکھوں کے تارے ہیں ،شرف بخشنے کاقصد فرماتے ہیں ؟      تماشا گاہ عالم روئے تو


تو کجا بہر تماشا مے روی


            جس قدریہ برکت والاقافلہ نگاہ سے دورہوتاجاتاہے اسی قدرپیچھے رہ جانے والی پہاڑیاں اورمسجدِنبوی کے منارے سر اٹھااٹھا کردیکھنے کی خواہش زیادہ ظاہر کرتے ہیں ، یہاں تک کہ جانے والے نگاہوں سے غائب ہوگئے اورمدینہ کی آبادی پر حسرت بھرا سناٹا چھا گیا ۔


اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد والہ وصحبہ اجمعین


راستے میں عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ تعالٰی عنہ  ملے ،عرض کی:’’کہاں کا قصد فرمادیا؟‘‘ ’’فی الحال مکہ کا۔‘‘عرض کی:’’کوفے کاعزم نہ فرمایا جائے وہ بڑابے ڈھنگاشہر ہے، وہاں آپ کے والدِماجدشہید ہوئے،آپ کے بھائی سے دغاکی گئی ،آپ مکے کے سوا کہیں کا ارادہ نہ فرمائیں ،اگرآپ شہیدہوجائیں گے توخداکی قسم!ہماراٹھکانانہ لگارہے گا،ہم سب غلام بنا لئے جائیں گے۔‘‘ با   لآخرحضورمکہ پہنچ کرساتویں ذی الحجہ تک امن وامان کے ساتھ قیام فرما رہے ۔  (الکامل فی التاریخ ، ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین...الخ،ج۳،ص۳۸۱)


کوفیوں کی شرارت اور امامِ مسلم کی شہادت


          جب اہلِ کوفہ کویزیدخبیث کی تخت نشینی اورامام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیعت طلب کئے جانے اورامام کے مدینہ چھوڑ کرمکے تشریف لے آنے کی خبرپہنچی، فریب دہی وعیاری کی پرانی روش یاد آئی۔ سلیمان بن صردخزاعی کے مکان پرجمع ہوئے، ہم مشورہ ہوکرعرضی لکھی کہ تشریف لائیے اورہم کویزید کے ظلم سے بچائیے۔ ڈیڑھ سو عرضیاں جمع ہوجانے پرامام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحریر فرمایا کہ ’’اپنے معتمدچچازاد بھائی مسلم بن عقیل کوبھیجتا ہوں ،اگریہ تمہارامعاملہ ٹھیک دیکھ کراطلاع دیں گے توہم جلدتشریف لائیں گے ۔ ‘‘


         حضرت مسلمرضی اللہ تعالٰی عنہ  کوفہ پہنچے ،ادھرکوفیوں نے امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور امام کومدد دینے کا وعدہ کیا ،بلکہ اَٹھارہ ہزار داخلِ بیعت بھی ہو گئے اورحضرت مسلم کو یہاں تک باتوں میں لے کر اطمینان دلایا کہ انہوں نے امام کوتشریف لانے کی نسبت لکھا ۔


          ادھریزید پلید کوکوفیوں نے خبر دی کہ حسین نے مسلم  کوبھیجا ہے ۔کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر (رضی اللہ تعالٰی عنہما) ان کے ساتھ نرمی کابرتاؤ کرتے ہیں ، کوفہ کابھلا منظور ہے تواپنی طرح کوئی زبردست ظالم بھیج ۔


          اس نے عبد اللہ ابن زیادکوحاکم بناکرروانہ کیا اورکہاکہ ’’مسلم  کوشہید کر ے یا کوفہ سے نکال دے ۔‘‘جب یہ مردک کوفہ پہنچا امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ اٹھارہ ہزارکی جماعت پائی ،امیروں کودھمکانے پرمقررکیا ،کسی کودھمکی دی، کسی کولالچ سے توڑا۔ یہاں تک کہ تھوڑی دیرمیں امام مسلم کے پاس صرف تیس آدمی رہ گئے۔ مسلم یہ دیکھ کرمسجدسے باہرنکلے کہ کہیں پناہ لیں۔ جب دروازہ سے باہرآئے ،ایک بھی ساتھ نہ تھا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ آخر ایک گھر میں پناہ لی۔ ابن زیاد نے یہ خبر پاکرفوج بھیجی،جب امام مسلم  کو آوازیں پہنچیں تلوارلے کراٹھے اوران روباہ منشوں کومکان سے باہرنکال دیا،کچھ دیربعدپھر جمع ہوکرآئے ،شیرِخدا کا بھتیجا پھر تیغ بکف اٹھا اور آن کی آن میں ان شغالوں کو پریشان کردیا،کئی بار ایساہی ہوا جب ان نامردوں کا اس اکیلے مردِ خدا پرکچھ بس نہ چلا، مجبورہوکرچھتوں پرچڑھ گئے پتھراور آگ کے لوکے پھینکنے شروع کئے۔ شیرِمظلوم کا تن ان ظالموں کے پتھروں سے خوناخون تھا،مگروہ تیغِ برکف و کف برلب حملہ فرماتا باہر نکلا،اورراہ میں جوگروہ کھڑے تھے ان پرعقاب ِعذاب کی طرح ٹوٹا۔جب یہ حالت دیکھی، ابن اشعث نے کہاکہ’’آپ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے لئے امان ہے نہ آپ قتل کئے جائیں نہ کوئی گستاخی ہو ۔‘‘مسلم مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ تھک کردیوارسے پیٹھ لگاکربیٹھ گئے ، خچرسواری کے لئے حاضرہوا، اس پرسوار کئے گئے ،ایک نے تلوار حضورکے ہاتھ سے لے لی ،فرمایا:یہ پہلا مکر ہے۔ ابن اشعث نے کہا:’’کچھ خوف نہ کیجئے ۔‘‘فرمایا: ’’وہ امان کدھر گئی ۔‘‘ پھررونے لگے ۔ ایک شخص بولا: ’’تم جیسا بہادراور روئے !۔ ‘‘فرمایا:’’اپنے لئے نہیں روتاہوں ، رونا حسین اورآلِ حسین کا ہے کہ وہ تمہارے اطمینان پرآتے ہوں گے اور انہیں اس مکرو بدعہدی کی خبر نہیں۔‘‘پھر ابن اشعث سے فرمایا:’’میں دیکھتا ہوں کہ تم مجھے پناہ دینے سے عاجز    رہو گے اورتمہاری امان کام نہ دے گی ، اگرہوسکے تو اتنا کرو کہ اپنے پاس سے کوئی آدمی امام حسین کے پاس بھیج کرمیرے حال کی اطلاع دے دو کہ وہ واپس جائیں اورکوفیوں کے فریب میں نہ آئیں۔ ‘‘


          جب مسلمرضی اللہ تعالٰی عنہ  ابن زیاد بدنہاد کے پاس لائے گئے ،ابن اشعث نے کہا: میں انہیں امان دے چکا ہوں۔وہ خبیث بولا:’’تجھے امان دینے سے کیا تعلق ؟ہم نے تجھے ان کے لانے کو بھیجا تھا نہ کہ امان دینے کو۔‘‘ ابن اشعث چپ رہے ،مسلم اس شدتِ محنت اور زخموں کی کثرت میں پیاسے تھے ۔ٹھنڈے پانی کا ایک گھڑا دیکھا، فرمایا:’’مجھے اس میں سے پلا دو ۔‘‘ ابن عمروباہلی بولا:’’دیکھتے ہو کیسا ٹھنڈاہے ،تم اس میں سے ایک بوند نہ چکھنے پاؤ گے ،یہاں تک کہ( معاذاللہ )جہنم میں آب ِگرم پیو۔ ‘‘


          امام مسلمرضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا:’’اوسنگ دل! درشت خو!آب حمیم ونارِجحیم کاتو مستحق ہے۔ ‘‘ پھرعمارہ بن عقبہ کو ترس آیا ،ٹھنڈاپانی منگا کرپیش کیا، امام رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے پینا چاہا ،پیالہ خون سے بھر گیا،تین بارایسا ہی ہوا،فرمایا: ’’خداکوہی منظورنہیں۔ ‘‘


          جب ابن زیاد بدنہاد کے سامنے گئے،اسے سلام نہ کیا وہ بھڑکا اور کہا: تم ضرورقتل کئے جاؤ گے ۔ فرمایا:’’ تو مجھے وصیت کر لینے دے۔‘‘ اس نے اجازت دی ۔ مسلم مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے عمروبن سعدسے فرمایا:’’ مجھ میں تجھ میں قرا بت ہے اور مجھے تجھ سے ایک پوشیدہ حاجت ہے۔اس سنگدل نے کہا میں سننا نہیں چاہتا۔ابن زیاد بولا ’’ سن لے کہ یہ تیرے چچا کی اولاد ہیں۔‘‘ وہ الگ لے گیا،فرمایا: ’’ کوفہ میں ،میں نے سات سوروپے قرض لئے ہیں وہ اداکردینا،اوربعدقتل میراجنازہ ابن زیاد سے لیکر دفن کرادینا اورامام حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے پاس کسی کوبھیج کرمنع کرابھیجنا ۔‘‘ ابن سعد نے ابنِ زیاد سے یہ سب باتیں بیان کردیں۔وہ بولا:’’کبھی خیانت کرنے والے کو بھی امانت سپردکی جاتی ہے‘‘یعنی انہوں نے پوشیدہ رکھنے کوفرمایا،تونے ظاہر کردیں ، اپنے مال کاتجھے اختیار ہے جوچاہے کراور حسین  اگرہماراقصد نہ کریں گے ،ہم ان کانہ کریں گے، ورنہ ہم ان سے باز نہ رہیں گے ،رہامسلم کاجنازہ ،اس میں ہم تیری سفارش سننے والے نہیں ،  پھر حکم پاکرجلادظالم انہیں بالائے قصرلے گیا ،امام مسلم (رضی اللہ تعالٰی عنہ )برابرتسبیح و استغفارمیں مشغول تھے یہاں تک کہ شہید کئے گئے اوران کاسرمبارک یزیدکے پاس بھیجا گیا ۔ (الکامل فی التاریخ،دعوۃ اھل الکوفۃ...الخ،ج۳،ص۳۹۵۔۳۹۷)


امامِ جنت مقام مکہ سے جاتے ہیں


پائی نہ تیغِ عشق سے ہم نے کہیں پناہ


قرب ِحرم میں بھی تو ہیں قربانیوں میں ہم


      ۶۰ھ کا پچھلا مہینہ ہے اورحج کازمانہ،دنیا کے دوردراز حصوں سے لاکھوں مسلمان  وطن چھوڑ کر عزیزوں سے منہ موڑ کر اپنے رب جل جلالہ کے مقدس اور برگزیدہ گھر کی زیارت سے مشرف ہونے حاضرآئے ہیں ،دلوں میں فرحت نے ایک جوش پیدا کردیا ہے ،اور سینوں میں سرور لہریں لے رہا ہے کہ یہی ایک رات بیچ میں ہے صبح نویں تاریخ ہے اور مہینوں کی محنت وصول ہونے ،مدتوں کے ارمان نکلنے کا مبارک دن ہے۔مسلمان خانہ کعبہ کے گرد پھرپھر کر نثار ہورہے ہیں ،مکہ معظمہ میں ہر وقت کی چہل پہل نے دن کوروزِ عید اوررات کو شبِ برأ ت کا آئینہ بنا دیا ہے۔کعبہ کا دلکش بناؤ، کچھ ایسی دل آویز اداؤں کا سامان اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے کہ لاکھوں کے جمگھٹ میں جسے دیکھئے شوق بھری نگاہوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ پردے کی چلمن سے کسی محبوب دلنواز کی پیاری پیاری تجلیاں چھن چھن کر نکل رہی ہیں ،جن کی ہوش ربا تاثیروں ،دلکش کیفیتوں نے یہ مجلس آرائیاں کی ہیں۔عاشقانِ ِدلدادہ فرقت کی مصیبتیں ،جدائی کی تکلیفیں جھیل کرجب خوش قسمتی سے اپنے پیارے معشوق کے آستانہ پر حاضری کاموقعہ پاتے ہیں ،ادب وشوق کی الجھن ،مسرت آمیز بے قراری کی خوش آئند تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے اور وہ اپنی چمکتی ہوئی تقدیرپر طرح طرح سے نازکرتے اور بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں :    


مقامِ وجد ہے اے دل کہ کوئے یارمیں آئے                          بڑے دربار میں پہنچے بڑی سرکارمیں آئے


          غرض آج کا یہ دھوم دھامی جلسہ جو ایک غرض مشترک کے ساتھ اپنے محبوب کے دردولت پرحاضر ہے ،اپنی بھرپور کامیابی پرانتہا سے زیادہ مسرت ظاہر کر رہاہے۔مگر امامِ مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقدس چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص وجہ سے اس مجمع میں شریک نہیں رہ سکتے یاان کے    سامنے سے کسی نے پردہ اٹھا کر کچھ ایسا عالم دکھادیا ہے کہ ان کی مقدس نگاہ کواس مبارک منظرکی طرف دیکھنے اورادھر متوجہ ہونے کی فرصت ہی نہیں۔ اوراگر کسی وقت حاجیوں کے جماؤکی طرف حسرت سے دیکھتے اورحجِ نفل کے فوت ہونے پراظہارافسوس بھی کرتے ہیں، توتقدیر،زبانِ حال سے کہہ اٹھتی ہے کہ ''حسین!رضی اللہ تعالٰی عنہ تم غمگین نہ ہواگر اس سال حج نہ کرنے کاافسوس ہے تو میں نے تمہارے لئے حجِ اکبرکاسامان مہیاکیا ہے اورکمر شوق پردامنِ ہمت کا مبارک احرام چست باندھو، اگر حاجیوں کی سعی کے لئے مکہ کاایک نالہ مقرر کیا گیا ہے توتمہارے لئے مکے سے کربلا تک وسیع میدان موجود ہے ۔حاجی اگر زمزم کاپانی پئیں توتمہیں تین دن پیاسارکھ کر شربتِ دیدار پلایا جائے گا کہ پیو تو خوب سیراب ہو کر پیو،حاجی بقرہ عید کی دسویں کو مکہ میں جانوروں کی قربانیاں کریں گے، تو تم محرم کی دسویں کوکربلا کے میدان میں اپنی گودکے پالوں کو خاک وخون میں تڑپتادیکھو گے ، حاجیوں نے مکہ کی راہ میں مال صرف کیا ہے ،تم کربلا کے میدان میں اپنی جان اورعمر بھر کی کمائی لُٹادوگے ،حاجیوں کے لئے مکہ میں تاجروں نے بازارکھولا ہے ،تم فرات کے کنارے دوست کی خاطراپنی دکانیں کھولو گے ۔یہاں تاجرمال فروخت کرتے ہیں، وہاں تم جانیں بیچوگے ،یہاں حاجی خرید وفروخت کوآتے ہیں ،تمہاری دکانوں پرتمہارا دوست جلوہ فرمائے گا،جوپہلے ہی ارشاد کرچکا ہے:


اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-


ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ تعالٰی نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ (پ11،التوبۃ:111)


          غرض ان کیفیتوں نے کچھ ایسا ازخودرفتہ بنا دیا ہے کہ امام عالی مقام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے بقر عید کی آٹھویں تاریخ کوفے کاقصد فرما لیا،جب یہ خبر مشہور ہوئی تو عمر بن عبدالرحمن(رضی اللہ تعالٰی عنہ )  نے اس ارادے کا خلاف کیا اور جانے سے مانع آئے،  فرمایا: ’’جوہونی ہے، ہوکررہے گی۔‘‘ عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہما) نے نہایت عاجزی سے روکنا چاہا ،اور عرض کی:’’کچھ دنوں تأ مل فرمائیے اورانتظارکیجئے ،اگرکوفی ابنِ زیاد کو قتل کردیں اوردشمنوں کونکال باہر کر یں توجانئے کہ نیک نیتی سے بلاتے ہیں اوراگروہ ان پرقابض اوردشمن موجود ہیں ہرگزوہ حضور کوبھلائی کی طرف نہیں بلاتے ہیں ، میں اندیشہ کرتاہوں کہ یہ بلانے والے ہی مقابل آئیں گے۔‘‘ فرمایا: ’’میں استخارہ کروں گا۔‘‘عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہما) پھر آئے اورکہا: ’’بھائی صبر کرنا چاہتا ہوں مگرصبرنہیں آتا،مجھے اس روانگی میں آپ کے شہید ہونے کا اندیشہ ہے، عراقی بدعہد ہیں ،انہوں نے آپ  کے باپ  کو شہید کیا ،آپ کے بھائی کا ساتھ نہ دیا، آپ  اہلِ عرب کے سردار ہیں ،عرب ہی میں قیام رکھئے یاعراقیوں کو لکھئے کہ وہ ابنِ زیاد کو نکال دیں ، اگرایسا ہوجائے تشریف لے جائیے اوراگر تشریف ہی لے جانا ہے تو یمن کا قصد فرمائیے کہ وہاں قلعے ہیں ،گھاٹیاں ہیں وہ ملک وسیع زمین رکھتاہے۔‘‘ فرمایا:’’بھائی خداکی قسم!میں آپ کوناصح مشفق جانتاہوں ،مگرمیں تو ارادۂ مصمم کرچکا۔‘‘ عرض کی:’’ توبیبیوں اور بچوں کوتوساتھ نہ لے جائیے ۔‘‘ یہ بھی منظور نہ ہوا۔


          عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماہائے پیارے!ہائے پیارے!کہہ کررونے لگے۔ اسی طرح عبد اللہ ابن عمرنے منع کیا،نہ مانا،انہوں نے پیشانی مبارک پر بوسہ دے کرکہا:’’اے شہیدہونے والے!میں تمہیں خداعزوجلکوسونپتاہوں۔ ‘‘


          یوہیں عبداللہ ابن زبیر (رضی اللہ تعالٰی عنہما) نے روکا ،فرمایا:’’میں نے اپنے والد ماجد  سے سنا ہے کہ ایک مینڈھے کے سبب سے مکے کی بے حرمتی کی جائے گی، میں پسند نہیں کرتاکہ وہ مینڈھا میں بنوں۔‘‘جب روانہ ہولئے ،راہ میں آپ کے چچازادبھائی حضرت عبداللہ ابن حضرت جعفرطیار(رضی اللہ تعالٰی عنہما)  کاخط ملا، لکھا تھا،’’ذرا ٹھہرئیے میں بھی آتاہوں۔ ‘‘


          حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے عمروبن سعید حاکم مکہ سے امامِ مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے ایک خط ’’امان اور واپس بلانے کا‘‘ مانگا ،انہوں نے لکھ دیا اور اپنے بھائی یحییٰ بن سعید کوواپس لانے کے لئے ساتھ کر دیا ۔دونوں حاضر آئے اور سرسے پاؤں تک گئے کہ واپس تشریف لے چلیں ،مقبول نہ ہوا۔فرمایا:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ہے اورمجھے ایک حکم دیا گیا ہے ،اس کی تعمیل کروں گا، سرجائے خواہ رہے۔‘‘پوچھا:وہ خواب کیا ہے ؟ فرمایا:’’جب تک زندہ ہوں کسی سے نہ کہوں گا ۔‘‘ یہ فرما کر روانہ ہوگئے ۔ (الکامل فی التاریخ،ذکرمسیرالحسین الی الکوفۃ...الخ،ج۳،ص۳۹۹ ملخصا)


نظم


سب نے عرض کی کہ شہزادۂ حیدر مت جا                              اے حسین ،ابن علی، سبط پیمبر مت جا صدمے واں پہنچے علی اورحسن کو کیاکیا                                  جانا کوفہ کا تو ہرگز نہیں بہتر مت جا


حق نما آئینہ ہے رخ ترا اندھے ہیں وہی                                 لے کے اندھوں میں یہ آئینہ سکندر مت جا


سنگِ باراں سے بچا جامِ بلوریں اپنا                             ایسے لوگوں میں جوپتھر سے ہیں بدترمت جا


گلِ شادابِ نبی اپنے چمن سے نہ نکل                                 نازنیں پھول ہے تُوکانٹوں کے اندرمت جا


چلتے ہیں صرصرِآفات کے مُظْلِم جھونکے                    شمع رُو قلعۂ فانوس سے باہر مت جا


بُوسعید، ابنِ عمر، جابر، و ابنِ عباس                           تھایہی کلمہ سب اصحاب کے لب پر مت جا


بیدل ؔاس شاہ کومقتل میں قضا لے ہی گئی                    کہتے سب رہ گئے اے دین کے سرورمت جا


          جب امام کے بھائی امام محمدبن حنفیہ(رضی اللہ تعالٰی عنہ )  کوروانگی امام کی خبر پہنچی، طشت میں وضو فرما رہے تھے ،اس قدرروئے کہ طشت آنسوؤں سے بھردیا ،امام تھوڑی دور پہنچے ہیں کہ فَرَزدَق شاعرکوفے سے آتے ملے ، کوفیوں کاحال پوچھا،عرض کیا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے جگر پارے !ان کے دل حضور کے ساتھ ہیں اوران کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ،قضاآسمان سے اترتی ہے اورخداجوچاہتاہے کرتا ہے۔ ‘‘


{ابن زیاد کی جانب سے ناکہ بندی}


          غرض ادھر توامام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )  روانہ ہوئے ،ادھر ابن زیاد بدنہاد بانی فسادکو یہ خبر پہنچی،قادسیہ سے خفان وکوہ لعلع اورقطقطانہ تک فوج سے ناکہ بندیاں کرادیں اور قیامت تک مسلمانوں کے دلوں کوگھائل کرنے اورکلیجوں میں گھاؤڈالنے کی بنیاد ڈال دی۔ امام مظلوم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے قیس بن مسہرکواپنی تشریف آوری کی اطلاع دینے کوفے بھیجا،جب یہ مرحوم قادسیہ پہنچے ،ابن زیاد کے سپاہی گرفتارکرکے اُس خبیث کے پاس لے گئے ۔اس مردود نے کہا:’’اگرجان کی خیرچاہتے ہو تو اس چھت پرچڑھ کرحسین کوگالیاں دو۔‘‘یہ سن کروہ خاندانِ نبوت کافدائی اہلِ بیت ِرسالت کا شیدائی چھت  پر گیا اور اللہ تبارک وتعالٰی کی حمدوثناکے بعد بلند آواز سے کہنے لگا: ’’حسین! آج تمام جہان سے افضل ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ زہرا (رضی اللہ تعالٰی عنہا) کے کلیجے کے ٹکڑے ہیں ،مولیٰ علی(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی آنکھوں کے نور،دل کے سُرُورہیں ان کاقاصد ہوں ،ان کا حکم مانو اور ان کی اطاعت کرو‘‘پھر کہا: ابنِ زیاد اور اس کے باپ پرلعنت۔ آخرِ کار اس مردک نے جل کرحکم دیا کہ چھت سے گرا کرشہید کئے جائیں۔(الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،ج۳،ص۴۰۲)


          اس وقت اس بادۂ الفت کے متوالے کابے قراردل ،امامِ عرش مقام کی طرف منہ کئے التجا کے لہجے میں عرض کر رہا ہے :      ؎


بجرم عشق توام مے کشندغوغائیست


تونیزبرسربام آکہ خوش تماشائیست


{ زہیر بن قین بجلی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی معیت}


          امام مظلوم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) آگے بڑھے توراہ میں زہیر بن قین بجلی(رضی اللہ تعالٰی عنہ )  ملے،وہ حج سے واپس آتے تھے اورمولیٰ علی (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے کچھ کدورت رکھتے تھے ۔ دن بھر امام کے ساتھ رہتے ،رات کو علیحدہ ٹھہرتے ۔ایک روز امام نے بلا بھیجا، بکراہت آئے ،خداجانے کیا فرمادیااورکس اداسے دل چھین لیا کہ اب جو واپس آئے تواپنااسباب امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )  کے اسباب میں رکھ دیا اورساتھیوں سے کہا: جومیرے ساتھ رہنا چاہے رہے ورنہ یہ ملاقات پچھلی ملاقات ہے ،پھر اپنا سامان لے آنے اور امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے ساتھ ہوجانے کا سبب بیان کیا کہ شہر بلنجر پرہم نے جہاد کیا ،وہ فتح ہوا،کثیر غنیمتوں کے ملنے پر ہم بہت خوش ہوئے ۔حضرت سلمان فارسی  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا:’’جب تم جوانانِ آلِ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سردار کوپاؤ توان کے ساتھ دشمن سے لڑنے پراس سے زیادہ خوش ہونا۔‘‘اب وہ وقت آگیا،میں تم سب کو سپردبخداکرتاہوں ،پھر اپنی بی بی کو طلاق دے کرکہا: ’’گھر جاؤ، میں نہیں چاہتاکہ میرے سبب سے تم کو کچھ نقصان پہنچے ۔ ‘‘ (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،ج۳،ص۴۰۳)  ان اچھی صورت والوں کی اداؤں میں کس قیامت کی کشش رکھی گئی ہے ،یہ جسے ایک نظردیکھ لیتے ہیں ، وہ ہر طرف سے ٹوٹ کرانہیں کا ہو رہتا ہے۔ پھر یاروں سے یاری رہتی ہے نہ زن وفرزندکی پاسداری ۔آخریہ وہی زہیرتوہیں جو مولیٰ علی(رضی اللہ تعالٰی عنہ )  سے کدورت رکھتے اوررات کو امام سے علیحدہ ٹھہرتے تھے، یہ انہیں کیا ہوگیا اورکس کی ادانے بازرکھاجوعزیزوں کاساتھ چھوڑ،عورت کو طلاق دینے پر مجبور ہوکر بے کسی سے جان دینے اور مصیبتیں جھیل کر شہید ہونے کو آمادہ ہو گئے۔


{ امام مسلمرضی اللہ تعالٰی عنہ  کی شہادت کی خبر}


          اب یہ قافلہ اوربڑھا توابن اشعث کا بھیجا ہواآدمی ملا ،جوحضرت مسلم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی وصیت پر عمل کرنے کی غرض سے بھیجا گیاتھا ،اس سے حضرت مسلم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی شہادت کی خبر معلوم ہونے پر بعض ساتھیوں نے امام کوقسم دی کہ یہیں سے پلٹ چلئے ۔ مسلم شہید(رضی اللہ تعالٰی عنہ )  کے عزیزوں نے کہا :’’ہم کسی طرح نہیں پلٹ سکتے ،یاخونِ نا حق کابدلہ لیں گے یامسلم مرحوم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے جاملیں گے ۔‘‘ امام نے فرمایا:’’تمہارے بعدزندگی بے کارہے ۔‘‘پھرجولوگ راہ میں ساتھ ہولئے تھے ان سے ارشادکیا :’’کوفیوں نے ہمیں چھوڑدیا، اب جس کے جی میں آئے پلٹ جائے ،ہمیں کچھ ناگوارنہ ہوگا۔‘‘ یہ اس غرض سے فرمادیا کہ لوگ یہ سمجھ کر ہمراہ ہوئے تھے کہ امام ایسی جگہ تشریف لیے جاتے ہیں جہاں کے لوگ داخلِ بیعت ہو چکے ہیں ، یہ سن کر سواان چند بزرگانِ خداکے جومکہ معظمہ سے ہم راہ رکاب سعادت مآب تھے، سب اپنی اپنی راہ گئے ۔پھر ایک اور عربی ملے،عرض کی کہ ’’اب تیغ وسناں پرجاناہے آپ کو قسم ہے واپس جائیے ۔‘‘ فرمایا:’’جو خدا چاہتا ہے ہوکررہتاہے ۔‘‘      (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،ج۳،ص۴۰۳ملخصاً )


 حضرتِ حُر رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی آمَد


          اب امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ  موضع شراف سے آگے بڑھے ہیں۔یہ دوپہرکا وقت ہے،یکایک ایک صاحب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا ،فرمایا:’’کیاہے؟‘‘ کہا:’’کھجورکے درخت نظر آتے ہیں۔‘‘ قبیلہ بنی اسد کے دوشخصوں نے کہا: ’’اس زمین میں کھجورکبھی نہ تھے۔‘‘ فرمایا:’’پھر کیا ہے ؟‘‘ عرض کی:’’ سوارمعلوم ہوتے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’میرا بھی یہی خیا ل ہے، اچھا تویہاں کوئی پناہ کی جگہ ہے کہ اسے ہم اپنی پشت پر لے کر اطمینان کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرسکیں۔‘‘ کہا:’’ہاں ! کوہ ذوحسم ،اگرحضور ان سے پہلے اس تک پہنچ گئے۔‘‘  


          یہ باتیں ہورہی تھیں کہ سوار نظرآئے اورامام رضی اللہ تعالٰی عنہ  سبقت فرما کرپہاڑ  کے پاس ہو لئے ،جب وہ اورقریب آئے تومعلوم ہواکہ حُرہیں جوایک ہزارسواروں پر افسر بناکر امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کوابن زیادبدنہادکے پاس لے جانے کے لئے بھیجے گئے ہیں ،اس ٹھیک دوپہرمیں اصحابِ امام کے سامنے اترے۔ مالکِ کوثر کے بیٹے نے حکم دیا کہ’’ انہیں اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلاؤ۔‘‘ ہمراہیانِ امام (رضی اللہ تعالٰی عنہم) نے پانی پلایا۔


          جب ظہرکاوقت ہوا ،امام نے مؤذن کواذان کا حکم دیا،پھران لوگوں سے فرمایا: ’’تمہاری طرف میراآنااپنی مرضی سے نہ ہوا،تم نے خط اور قاصدبھیج بھیج کربلایا، اب اگر اطمینان کا اقرار کرو،تومیں تمہارے شہرکوچلوں ورنہ واپس جاؤں۔‘‘ کسی نے جواب نہ دیا اورمؤذن سے کہا :تکبیر کہو ۔امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے حرسے فرمایا:’’اپنے ساتھیوں کو تم نمازپڑھاؤگے؟‘‘کہا:’’نہیں ،آپ پڑھائیں اورہم سب مقتدی ہوں۔ بعدِنماز حر،اپنے مقام پر گئے۔امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )  نے اللہ تعالٰی کی تعریف کے بعد ان لوگوں سے ارشاد کیا:’’اگرتم اللہ(عزوجل) سے ڈرو اور حق کو اس کے اہل کے لئے پہچانو تو خدا کی رضامندی اسی میں ہے کہ ہم اہلِ بیت ان ظالموں کے مقابلہ میں اُولی الامر ہونے کے مستحق ہیں ، بایں ہمہ اگرتم ہمیں ناپسند کرواورہمارا حق نہ پہچانو اوراپنے خطوں اور قاصدوں کے خلاف ہمارے بارے میں رائے رکھنا چاہو تومیں واپس جاؤں۔ ‘‘


           حرنے عرض کی:’’ واللہ! ہم نہیں جانتے کیسے خط اورکیسے قاصد؟ امام نے دو خورجیاں بھرے ہوئے خط نکال کرسامنے ڈال دئیے۔حرنے کہا:’’میں خط بھیجنے والوں میں نہیں ، مجھے تویہ حکم دیا گیا ہے کہ جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو پاؤں توکوفہ ،ابن زیاد  کے پاس پہنچاؤں۔‘‘ فرمایا: ’’تیری موت نزدیک ہے اور یہ ارادہ دور۔‘‘ پھر ہمراہیوں کوحکم دیاکہ’’واپس چلیں۔‘‘حرنے روکا۔فرمایا:’’تیری ماں تجھے روئے کیا چاہتا ہے؟ ‘‘  کہا: ’’سنئے !خداکی قسم! آپ کے سواتمام عرب میں کوئی اور یہ بات کہتا تومیں اس کی ماں کو برابرسے کہتاکسے باشد،مگرواللہ!آپ کی ماں کانامِ پاک تو میں ایسے موقع پرلے ہی نہیں سکتا۔‘‘فرمایا:’’آخرمطلب کیاہے؟ ‘‘ عرض کی: ’’ابن زیاد کے پاس حضورکالے چلنا۔‘‘فرمایا: ’’توخداکی قسم!میں تیرے ساتھ نہ چلوں گا ۔‘‘ کہا :’’توخداکی قسم !آپ کو نہ چھوڑوں گا ۔‘‘


          جب بات بڑھی اورحرنے دیکھا امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) یوں راضی نہ ہوں گے اور کسی گستاخی کی نسبت ان کے ایمان نے اجازت نہ دی تویہ عرض کی کہ ’’میں دن بھر تو حضور سے علیحدہ ہونہیں سکتا ،ہاں جب شام ہوتوآپ مجھ سے عورتوں کی ہمراہی کا عذرفرما کرعلیحدہ ٹھہرئیے اوررات میں کسی وقت موقع پا کر تشریف لے جائیے، میں ابن زیاد کوکچھ لکھ بھیجوں گا ۔شاید اللہ تعالٰی وہ صورت کرے کہ میں کسی بے جا معاملہ میں مبتلا ہونے کی جرأ ت نہ کرسکوں۔‘‘      (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۰۷ملخصاً)


{ کوفیوں کی بے وفائی اور قیس بن مسہر کی شہادت کی خبر}


          جب عذیب الہجانات پہنچے ،کوفے سے چارشخص آتے ملے ،حال پوچھا ،مجمع بن عبید اللہ عامری نے عرض کی:’’ شہرکے رئیسوں کو بھاری رشوتوں سے توڑ لیا گیا اوران کی تھیلیوں کوروپیوں اشرفیوں سے بھر دیا گیا ہے وہ توایک زبان حضور کے مخالف ہو گئے ۔ رہے عوام ان کے دل حضور(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی جانب جھکتے ہیں اورکل انہیں کی تلواریں حضورپرکھنچیں گی۔‘‘فرمایا:’’میرے قاصد قیس کاکیاحال ہے؟‘‘  کہا: ’’قتل کئے گئے۔‘‘امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) بے اختیارروپڑے اور فرمایا: ’’کوئی اپنی منت پوری کرچکا اور کوئی انتظار میں ہے، الٰہی! ہمیں اور انہیں جنت میں جمع فرما۔ ‘‘


          طرماح بن عدی نے عرض کی:’’آپ کے ساتھ گنتی کے آدمی ہیں اگر حرکی جماعت ہی آپ سے لڑے توکفایت کر سکتی ہے ،نہ کہ وہ جماعت جو چلنے سے ایک دن پہلے میں نے کوفے میں دیکھی تھی ،جوآپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف روانگی کے لئے تیارہے ۔میں نے اپنی عمرمیں اتنی بڑی فوج کبھی نہ دیکھی ،میں حضور کو قسم دیتا ہوں کہ اگران سے ایک بالشت بھر جدائی کی قدرت ہو تو اسی قدر کیجئے اوراگروہ جگہ منظورہو جہاں باذن اللہ تعالٰی آرام واطمینان سے قیام فرما کر تدبیر فرمائیے تومیرے ساتھ کوہ آجاء کی طرف چلیے، واللہ!اس پہاڑکے سبب سے ہم بادشاہان غسان وحمیر اورنعمان بن المنذر بلکہ عرب وعجم کے سب حملوں سے محفوظ رہے۔‘‘ حضور! وہاں ٹھہر کر آجاء اور سلمی کے رہنے والوں کو فرمائیے ،خداکی قسم! دس دن نہ گزریں گے کہ قومِ طیٔ کے سوارو پیادے حاضرخدمت ہوں گے ،پھر جب تک مرضی مبارک ہو ہم میں ٹھہرئیے اور اگر پیش قدمی کاقصد ہو تو بنی طیٔ سے بیس ہزارجوان حضور کے ہمراہ کردینے کامیراذمہ ہے ، جوحضورکے سامنے تلوار چلائیں گے اورجب تک ان میں کوئی آنکھ پلک مارتی باقی رہے گی حضور تک دشمن نہ پہنچ سکیں گے ۔ارشادہوا:’’اللہ تمہیں جزائے خیر دے، ہمارااور کوفیوں کا کچھ قول ہوگیا ہے جس سے ہم پھرنہیں سکتے۔‘‘یہ فرماکر انہیں رخصت کیا ۔


     (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۰۹ملخصاً)


{امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا خواب دیکھنا}


          امام نے راہ میں ایک خواب دیکھا ،جاگے تو ’’ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون والحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ فرماتے ہوئے اٹھے ۔امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: ’’ اے میرے باپ! میں آپ پرقربان ،کیا بات ملاحظہ فرمائی ؟‘‘ فرمایا: ’’خواب میں ایک سوار دیکھا،کہہ رہا ہے، لوگ چلتے ہیں اور ان کی قضائیں ان کی طرف چل رہی ہیں میں سمجھاکہ ہمیں ہمارے قتل کی خبردی جاتی ہے۔‘‘حضرتِ عابد (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے کہا: ’’اللہ آپ کوکوئی برائی نہ دکھائے کیا ہم حق پر نہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ضرورہیں۔‘‘ عرض کی: ’’جب ہم حق پر جان دیتے اور قربا ن ہوتے ہیں ،توکیا پرواہ ہے۔‘‘فرمایا: ’’اللہ تم کو ان سب جزاؤں سے بہتر جزادے جو کسی بیٹے کوکسی باپ کی طرف سے ملے۔‘‘(الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۱ملخصاً)


{ ابن زیاد کی طرف سے امامِ عرش مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سختی کا حکم}


          جب نینویٰ پہنچے ایک سوارکوفے سے آتا ملا ،اس نے حرکو ابن زیاد کا خط دیا، لکھاتھا: ’’حسین پرسختی کر جہاں اتریں ، میدان میں اتریں ،پانی سے دور ٹھہریں یہ قاصد برابرتیرے ساتھ رہے گا یہاں تک کہ مجھے خبردے کہ تونے میرے حکم کی کیا تعمیل کی ۔‘‘ حر نے خط پڑھ کر امام سے گزارش کی کہ ’’مجھے یہ حکم آیا ہے میں اس کے خلاف نہیں کرسکتا کہ یہ قاصد مجھ پر جاسوس بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ ‘‘


          زہیر بن قین نے عرض کی:’’خداکی قسم! اس کے بعد جو کچھ آئے گا وہ اس سےسخت تر ہوگا اس گروہ کا قتال ہمیں آئندہ آنے والوں کے قتال سے آسان ہے ۔‘‘ ارشاد  ہوا: ’’ہم ابتدا نہ فرمائیں گے ۔‘‘یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ آفتاب غروب ہو گیا اورمحرم کی دوسری رات کا چانداپنی ہلکی ہلکی روشنی دکھانے لگا،دونوں لشکر علیحدہ علیحدہ ٹھہرے۔ (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۱ملخصاً)


نواسۂ رسول کی شب میں روانگی


          اب مشرقی کنا روں سے اندھیرا بڑھتا آتا ہے اور بزمِ فلک کی شمعیں روشن ہوتی جاتی ہیں ، فضائے عالم کے سیاح اور خداکی آزاد مخلوق پرند چہچہا چہچہا کر خاموش ہوگئے ہیں ،زمانے کی رفتار بتانے والی گھڑی اور عمروں کا حسا ب سمجھانے والی جنتری اسلامی سن کی تقویم جسے قدرت کے زبردست ہاتھ نے عرجون قدیم کی حد تک پہنچادیا ہے ،کچھ اپنی دلکش ادائیں دکھا کرروپوش ہو گئی ،تاریکیوں کا رنگ اب اور بھی گہرا ہو گیا ہے ۔نگاہیں جو تقریباً دو گھنٹے پہلے دنیا کی وسیع آبادی میں دُور کی چیزوں کوباطمینان تمام دیکھتی اورپرکھ سکتی تھیں ،اب یہ تھوڑے فاصلہ پربھی کام دینے میں الجھتی بلکہ ناکام رہ جاتی ہیں اوراگرکچھ نظر بھی آجاتا ہے تو رات کی سیاہ چلمن اسے صاف معلوم ہونے سے روکتی ہے۔ وقت کے زیادہ گزرنے اور بول چال کے موقوف ہوجانے نے سناٹا پیداکر دیا ہے رات اور بھی بھیانک ہو گئی ہے۔شب بیدارستاروں کی آنکھیں جھکی پڑتی ہیں ، سونے والے لنبیاں تانے سورہے ہیں ،نیند کا جادوزمانے پرچل گیا ہے،حرکے لشکر سے نفیرِ خواب بلند ہوئی ہے ،امام جنت مقام جنہوں نے اتنی رات اسی موقع کے انتظار میں جاگ جاگ کر گزاری ہے ،کوچ کی تیاریاں فرما رہے ہیں اسباب جو شام سے بندھا رکھا تھا بار کیا گیا اور عورتوں بچوں کو سوار کرا یاگیاہے۔اب یہ مقدس قافلہ اس اندھیری رات میں فقط اس آسرے پر روانہ ہو گیا ہے کہ رات زیادہ ہے دشمن سوتے رہیں گے اورہم ان سے صبح ہونے تک بہت دور نکل جائیں گے ،باقی رات چلتے اور سواریوں کو تیز چلاتے گزری ۔


{میدانِ کربلا میں آمَد}


          اب تقدیر کی خوبیاں دیکھئے کہ مظلوموں کو صبح ہوتی ہے تو کہاں ،کربلا کے میدان میں ،جل جلالہ ،یہ محرم  ۶۱ھ کی دوسری تاریخ اور پنج شنبہ کا دن ہے ۔عمروبن سعد اپنا لشکر لے کر امام کے مقابلہ پر آگیا ہے ،اس بد بخت کو ابن زیاد بدنہادنے کفار دیلم کے جہاد پر مقرر کیا۔اورفتح کے صلے میں حکومت ’’رے ‘‘ کافرمان لکھ دیا تھا۔ امام مظلوم کی خبر پائی ،بد نصیب کی نیت بدی پر آئی ،بلا کر کہاکہ ’’ ادھر کا قصد ملتوی رکھ ،پہلے حسین سے مقابل ہو ،فارغ ہو کر ادھر جانا۔‘‘کہا: ’’مجھے معاف کرو ۔‘‘کہا :’’بہتر مگر اس شرط پرکہ ہمارا نوشتہ واپس دے ۔‘‘ اس نے ایک دن کی مہلت مانگ کر احباب سے مشورہ کیا،سب نے ممانعت کی اور اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے کہا : ’’اے ماموں ! میں تجھے خداکی قسم دیتاہوں کہ حسین سے مقابلہ کرکے گناہ گارنہ ہوگا! ، اللہ  کی قسم! اگرساری دنیا تیری سلطنت میں ہو تواسے چھوڑنا اس سے آسان ہے کہ تُو خداسے حسین کا قاتل ہو کر ملے۔‘‘ کہا: ’’نہ جاؤں گا ۔‘‘مگر ناپاک دل میں تردد رہا، رات کو آواز آئی ،کوئی کہتاہے:     ؎


اَ اَتْرُکُ مُلْکَ الرَّیّ وَالرَّیّ رَغْبَۃ                                                                          اَمْ اَرْجِعُ مَذْمُوْماً بِقَتْلِ حُسَیْنٖ


وَفِیْ قَتْلِہِ النَّارُ الَّتِیْ لَیْسَ دُوْنَہَا                                           حِجَاب  وَ مُلْکُ الرَّیّ قُرَّۃُ عین


           کہا: رے کی حکومت چھوڑدوں !اوروہ بڑی مرغوب چیز ہے یاقتل حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مذمت گوارا کروں اور ان کے قتل میں وہ آگ ہے جس کی روک نہیں اور رے کی سلطنت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔(الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۲ملخصاً)


      { امامِ مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ  پر پانی بندہونا}


     آخر قتلِ امامِ مظلوم ہی پر رائے قرارپائی ،بے دین نے اَلدِّیْنُ([1])مَزْرَعَۃُ الدُّنْیَا کی ٹھہرائی۔        فرات کے گھاٹوں پر پانسو سواربھیج کر ،ساقی کوثر صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمکے بیٹے پر پانی بند کیا۔ایک رات امام نے بُلا بھیجا، دونوں لشکروں کے بیچ میں حاضر آیا ۔دیر تک باتیں رہیں ،امام نے سمجھایا کہ’’ اہلِ باطل کا ساتھ چھوڑ۔‘‘ کہا’’ میراگھرڈھایا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’اس سے بہتر بنوا دوں گا ۔‘‘ کہا ’’میری جائیدادچھن جائے گی ۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اس سے اچھی عطا فرماؤں گا ۔‘‘ (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۳ملخصاً) { ابن سعدکاابن زیاد کو خط اور شمر کا امام کے خلاف ورغلانا}


       تین چاررات یہی باتیں رہیں ،جن کااثر اس قدر ہوا کہ ابن سعدنے ایک صلح آمیز خط ابن زیا د کو لکھاکہ’’ حسین چاہتے ہیں یاتومجھے واپس جانے دو یا یزید کے پاس لے چلو یا کسی اسلامی سرحد پر چلا جاؤں ،اس میں تمہاری مراد حاصل ہے۔‘‘  حالانکہ امام نے یزید پلید کے پاس جانے کو ہرگزنہ فرمایا تھا ،ابن زیاد نے خط پڑھ کر کہا:’’بہتر ہے۔‘‘شمر ذِی الْجَوْشَن خبیث بولا :’’کیا یہ باتیں مانے لیتا ہے ! خداکی قسم! اگر حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ بے تیری اطاعت کئے چلے گئے توان کے لئے عزت وقوت ہوگی اور تیرے واسطے ضعف وذلت،یوں نہیں بلکہ تیرے حکم سے جائیں ،اگرتُوسزا دے تو مالک ہے اور اگرمعاف کرے تو تیرا احسان ہے ،میں نے سنا ہے کہ حسین اور ابن سعد میں رات رات بھر باتیں ہوتی ہیں۔‘‘ ابن زیاد نے کہا:’’تیری رائے مناسب ہے تُومیرا خط ابن سعد کے پاس لے جا اگروہ مان لے تو اس کی اطاعت کرنا ورنہ تُوسردارِ لشکرہے اور ابن سعد کاسرکاٹ کر میرے پاس بھیج دینا۔‘‘ پھر ابن سعدکولکھا کہ ’’میں نے تجھے حسین کی طرف اس لئے بھیجا تھا کہ توان سے دست کش ہو یاامیددلائے اورڈھیل دے یا ان کا سفارشی بنے،دیکھ! حسین سے میری فرمانبرداری کے لئے کہہ،اگرمان لیں تومطیع بنا کر یہاں بھیج دے ورنہ انہیں اوران کے ساتھیوں کو قتل کر ،اگرتو ہمارا حکم مانے گا توتجھے فرماں برداری کا انعام ملے گا ورنہ ہمارالشکر شمر کے لئے چھوڑدے ۔ ‘‘


          جب شمر نے خط لیا توعبداللہ ابن ابی المحل بن حزام اس کے ساتھ ساتھ اس کی پھوپھی ام البنین بنت حزام مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ اور پسرانِ مولیٰ علی، حضرت عباس وعثمان وعبداللہ وجعفر کی والدہ تھیں ،اس نے ابن زیاد سے اپنے ان پھوپھی زاد بھا ئیوں کے لئے امان مانگی، اس نے لکھ دی ۔وہ خط اس نے ان صاحبوں کے پاس بھیجا ،انہوں نے فرمایا: ’’ہمیں تمہاری امان کی حاجت نہیں ،ابن سمیہ کی امان سے اللہ تعالٰی کی امان بہتر ہے۔ ‘‘ (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۴ملخصاً)


{شمر کی ابن سعد کے پاس آمد}


          جب شمر نے ابن سعدکو ابن زیاد بدنہاد کا خط دیا ،اس نے کہا: ’’تیرا برا ہو ، میرا  خیال ہے کہ تونے ابن زیاد کو میری تحریرپرعمل کرنے سے پھیر کرکام بگاڑدیا ،مجھے صلح ہوجانے کی پوری امیدتھی، حسین ہرگز تو اطاعت قبول کریں گے ہی نہیں خداکی قسم! ان کے باپ کادل ان کے پہلو میں رکھا ہواہے ۔‘‘ شمرنے کہا:’’اب توکیا کرنا چاہتا ہے ؟‘‘بولا:’’جو ابن زیاد نے لکھا ۔‘‘ شمر نے عباس اور ان کے حقیقی بھائیوں کو بلا کر کہا:’’اے بھانجو!تمہیں امان ہے ۔‘‘ وہ بولے: ’’اللہ کی لعنت تجھ پراور تیری امان  پر، ماموں بن کر ہمیں امان دیتا ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے کوامان نہیں۔ ‘‘(الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۴ملخصاً)


{خواب میں جدِ کریمصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمکی تشریف آوری}


          یہ پنجشنبہ کی شام اور محرم  ۶۱ ہجری کی نویں تاریخ ہے اس وقت سردارِجوانانِ جنت کے مقابلہ میں جہنمی لشکرکوجنبش دی گئی ہے اوروہ مے شہادت کا متوالا ،حیدری کچھار کا شیر ،خیمہ اطہر کے سامنے تیغ بکف جلوہ فرماہے۔آنکھ لگ گئی ہے ،خواب میں اپنے جدِکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کودیکھا ہے کہ اپنے لختِ جگر کے سینہ پردستِ اقدس رکھے فرما رہے ہیں ’’اللھُمَّ اَعْطِ الْحُسَیْنَ صَبْراًوَّاَجْراً‘‘الٰہی!حسین کو صبرواجرعطا کر۔ اور ارشاد ہوتاہے کہ’’ اب عنقریب ہم سے ملاچاہتے ہو اور اپنا روزہ ہمارے پاس آکرافطارکیا چاہتے ہو ۔‘‘ جوشِ مسرت میں امام کی آنکھ کھل گئی، ملاحظہ فرمایاکہ دشمن حملہ آوری کا قصد کررہے ہیں ،جمعہ کے خیال اور پسماندوں کووصیت کرنے کی غرض سے امام نے ایک رات کی مہلت چاہی، ابن سعد نے مشورہ لیا عمروبن حجاج زبیدی نے کہا: ’’اگر دیلم کے کافر بھی تم سے ایک رات کی مہلت مانگتے تودینی چاہئے تھی ۔‘‘ غرض مہلت دی گئی ۔(الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۵ملخصاً)


{ لشکرامامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف سے مقابلے کی تیاری}


           یہاں یہ کارروائی ہوئی کہ سب خیمے ایک دوسرے کے قریب کردئیے گئے، طنابوں سے طنابیں ملادیں ،خیموں کے پیچھے خندق کھود کر نرکل وغیرہ خشک لکڑیوں سے بھردی۔ اب مسلمان ان کاموں سے فارغ ہوکر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اورامام اپنے اہل اور ساتھیوں سے فرما رہے ہیں :’’صبح ہمیں دشمنوں سے ملنا ہے ،میں نے بخوشی تمام تم سب کواجازت دی ،ابھی رات باقی ہے جہاں جگہ پاؤچلے جاؤ اورایک ایک شخص میرے اہلِ بیت سے ایک ایک کو ساتھ لے جاؤ ،اللہ تم سب کو جزائے خیر دے،دیہات وبلادمیں متفرق ہوجاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی بلا ٹالے ،دشمن جب مجھے پائیں گے ،تمہاراپیچھا نہ کریں گے ۔‘‘یہ سن کرامام کے بھائیوں ،صاحبزادوں ، بھتیجوں اورعبداللہ ابن جعفر کے بیٹوں نے عرض کی: ’’یہ ہم کس لئے کریں اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں ، اللہ ہمیں وہ منحوس دن نہ دکھائے کہ آپ نہ ہوں اور ہم باقی ہوں۔ ‘‘


          مسلم شہیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھائیوں سے فرمایاگیا:’’تمہیں مسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ  ہی کا قتل ہوناکافی ہے۔ میں اجازت دیتا ہوں ،تم چلے جاؤ ۔‘‘عرض کی: اور ہم لوگوں سے جاکرکیا کہیں ؟یہ کہیں کہ’’ اپنے سردار،اپنے آقا،اپنے سب سے بہتر بھائی کو دشمنوں کے نرغے میں چھوڑآئے ہیں۔ نہ ان کے ساتھ تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا،نہ تلوارچلائی اور ہمیں خبر نہیں کہ ہمارے چلے آنے کے بعد ان پرکیا گزری ۔خداکی قسم! ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے بلکہ اپنی جانیں ،اپنے بال بچے تمہارے قدموں پر فداکر دیں گے، تم پر قربان ہو کر مر جائیں گے اللہ اس زندگی کا براکرے جو تمہارے بعد ہو ۔ ‘‘   ؎


خوشا حالے  کہ  گردم  گردِ  کویت


رخے بر خوں گریباں پارہ پارہ


          مسلم بن عوسجہ اسدی نے عرض کی:’’کیاہم حضور کو چھوڑ کر چلے جائیں اور ابھی ہم نے حضور کا کوئی حق اداکرکے اللہ کے سامنے معذرت کی جگہ نہ پیداکی،خداکی قسم! میں تو آپ کاساتھ نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ اپنا نیزہ دشمنوں کے سینے میں توڑدوں اورجب تک تلوار میرے ہاتھ میں رہے ،وار کئے جاؤں ، خدا گواہ ہے اگرمیرے پاس ہتھیار بھی نہ ہوتے تومیں پتھر مارتا،یہاں تک کہ آپ کے ساتھ مارا جاتا۔‘‘ اسی طرح اورسب ساتھیوں نے بھی گزارش کی ۔اللہ عزوجل ان سب کو جزائے خیر دے۔(الکامل فی التاریخ، ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۴ملخصاً) اورجنات الفردوس میں امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاساتھ اور ان کے جد کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا سایہ عطافرمائے اوردنیاوآخرت ،قبروحشر میں ہمیں ان کے برکات سے بہرہ مندی بخشے ۔ اٰمین اٰمین یا ارحم الراحمین  ۔


          اسی رات میں امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )نے کچھ ایسے شعر پڑھے جن کا مضمون حسرت و بے کسی کی تصویرآنکھوں کے سامنے کھینچ دے ،زمانہ صبح وشام خدا جانے کتنے دوستوں اور عزیزوں کو قتل کرتاہے اورجسے قتل کرنا چاہتا ہے اس کے بدلے میں دوسرے پر راضی نہیں ہوتا ۔ہونے والے واقعے کی خبر دینے والی دل خراش آواز حضرت زینب (رضی اللہ تعالٰی عنہا) کے کان میں پہنچی،صبرنہ ہو سکا بے تاب ہو کر چلاتی ہوئی دوڑیں ، ’’ کاش! اس دن سے پہلے مجھے موت آگئی ہوتی ،آج میری ماں فاطمہ کاانتقال ہوتا ہے ،آج میرے با پ علی دنیا سے گزرتے ہیں ،آج میرے بھائی حسن کا جنازہ نکلتا ہے ،اے حسین ! اے گزرے ہوؤں کی نشانی اور پسماندوں کی جائے پناہ !‘‘پھر غش کھا کر گر پڑیں۔


          اللہ اکبر! آج مالک کوثرکے گھر میں اتنا پانی بھی نہیں کہ بے ہوش بہن کے منہ پر چھڑکا جائے۔جب ہوش آیا توفرمایا: ’’اے بہن!  اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ، جان لو سب زمین والوں کو مرنا اور سب آسمان والوں کوگزرنا ہے ،اللہ کے سوا سب کو فنا ہے ، میرے باپ،میری ماں ،میرے بھائی (رضی اللہ تعالٰی عنہم) مجھ سے بہترتھے۔ ہرمسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی راہ چلنی چاہیئے۔ ‘‘  (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۶ملخصاً)


اب قیامت قائم ہوتی ہے


بہاروں پرہیں آج آرایشیں گلزارِ جنت کی


سواری آنے والی ہے شہیدانِ محبت کی


کھلے ہیں گل بہاروں پر ہے پھلواڑی جراحت کی فضا ہر زخم کے دامن سے وابستہ ہے جنت کی


گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں امت کی


کوئی تقدیر تو دیکھے اسیرانِ مصیبت کی


شہیدِ ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیوں کر ہو


ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغ ِجنت کی


کرم والوں نے در کھولا تو رحمت کا سماں باندھا


کمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل ِشہادت کی


علی کے پیارے خاتون ِقیامت کے جگر پارے


زمیں سے آسماں تک دھوم ہے ان کی سیادت کی


زمینِ کر بلا پر آ ج مجمع ہے حسینوں کا


جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نورو طلعت کی


یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کو


یہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی


یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جان تازہ پائیں پروانے


یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی


یہ وہ شمعیں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو


یہ وہ شمعیں ہیں جن سے روح ہو کافور ظلمت کی


دلِ حورو ملائک رہ گیا حیرت زدہ ہو کر


کہ بزمِ گلرخاں میں لے بلائیں کس کی صورت کی


جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں


ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی


اسی منظر پہ ہرجانب سے لاکھوں کی نگاہیں ہیں


اسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی


ہوا چھڑکاؤ پانی کی جگہ اشکِ یتیماں سے


بجائے فرش آنکھیں بچھ گئیں اہلِ بصیرت کی


ہوائے یار نے پنکھے بنائے پر فرشتوں کے


سبیلیں رکھی ہیں دیدارنے خود اپنے شربت کی


ادھر افلاک سے لائے فرشتے ہار رحمت کے


ادھر ساغر لئے حوریں چلی آتی ہیں جنت کی


سجے ہیں زخم کے پھولوں سے وہ رنگین گلدستے


بہارِ خوشنمائی پر ہے صدقے روح جنت کی نرالے عطر میں ڈوبی ہوئی ہے روح نکہت کی


دل پرسوز کے سلگے اگر سوز ایسی کثرت سے


کہ پہنچی عرش و طیبہ تک لپٹ سوزِ محبت کی


ادھر چلمن اٹھی حسن ازل کے پاک جلوؤں سے


ادھر چمکی تجلی بدرِ تابانِ رسالت کی


زمینِ کربلا پر آج ایسا حشر برپا ہے


کہ کھنچ کھنچ کر مٹی جاتی ہیں تصویریں قیامت کی


گھٹائیں مصطفی کے چاند پر گھِرگھِرکر آتی ہیں


سیہ کارانِ امت تیرہ بختانِ شقاوت کی


یہ کس کے خون کے پیاسے ہیں اس کے خون کے پیاسے


بجھے گی پیاس جس سے تشنہ کامانِ قیامت کی


اکیلے پر ہزاروں کے ہزاروں وارچلتے ہیں


مٹادی دین کے ہمراہ عزت شرم و غیرت کی


مگر شیرِخدا کا شیر جب بپھرا غضب آیا


پرے ٹوٹے نظر آنے لگی صورت ہزیمت کی


کہا یہ بوسہ دے کر ہاتھ پر جوشِ دلیری نے


بہادر آج سے کھائیں گے قسمیں اس شجاعت کی


تصدق ہو گئی جانِ شجاعت سچے تیور کے


فدا شیرانہ حملوں کی ادا پر روح جرأت کی


نہ ہوتے گر حسین ابن علی اس پیاس کے بھوکے


نکل آتی زمینِ کربلا سے نہر جنت کی


مگرمقصود تھا پیاسا گلا ہی ان کو کٹوانا


کہ خواہش پیاس سے بڑھتی رہے رویت کے شربت کی


شہیدِ ناز رکھ دیتا ہے گردن آبِ خنجر پر


جو موجیں باڑھ پر آجاتی ہیں دریائے الفت کی


یہ وقتِ زخم نکلا خون اچھل کرجسمِ اطہر سے


کہ روشن ہوگئی مشعل شبستانِ محبت کی


سرِ بے تن تن ِآسانی کو شہرِ طیبہ میں پہنچا


تن بے سر کو سرداری ملی ملکِ شہادت کی


حسنؔ سُنّی ہے پھر افراط وتفریط اس سے کیوں کر ہو


ادب کے ساتھ رہتی ہے روش اربابِ سنت کی


{دس محرم الحرام اور خاندانِ رسالت پر ظلم وستم کا آغاز}


          روزِعاشورا کی صبح جانگزا آتی اورجمعے کی سحر محشر زامنہ دکھاتی ہے ۔امام عرشمقام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) خیمہ اطہرسے برآمدہوکر اپنے بَہتّرساتھیوں ، بتیس 


ہوائیں گلشنِ فردوس سے بس بس کر آتی ہیں سواروں ، چالیس پیادوں کا لشکر ترتیب دے رہے ہیں۔دہنے بازو پرزہیربن قین ، بائیں پر حبیب بن مظہر (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سرداربنائے گئے اور نشان برداری پر حضرت عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) مقرر فرمائے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ خندق کی لکڑیوں میں آگ دے دی جائے کہ دشمن ادھر سے راہ نہ پائیں۔اس انتظام کے بعد امام جنت مقام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) تہیہ شہادت کے واسطے پاکی لینے تشریف لے گئے ۔عبد الرحمن بن عبد ربہ ،یزید بن حصین ہمدانی (رضی اللہ تعالٰی عنہما)خیمے کے دروازے پر منتظرہیں کہ بعد فراغِ امام  خود بھی یہ سنت ادا کریں۔ ابن حصین نے عبد الرحمن سے کچھ ہنسی کی بات کہی ، وہ بولے: ’’یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟‘‘ کہا:’’خداگواہ ہے میری قوم بھر کو معلوم ہے کہ جوانی میں بھی کبھی میری ہنسی کی عادت نہ تھی، اس وقت میں اس چیز کے سبب سے خوش ہورہا ہوں جوابھی ملاچاہتی ہے۔تم اس لشکرکودیکھتے ہوجوہمارے مقابلہ کے لئے تلاکھڑا ہے، خدا کی قسم ہم میں اورحوروں کی ملاقات میں اتنی ہی دیر باقی ہے کہ یہ تلواریں لے کر ہم پرجھک پڑے ۔‘‘


            امام جنت مقام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )باہر تشریف لائے اور ناقہ پر سوارہوکراِتمامِ حجت کے لئے اشقیا کی طرف تشریف لے گئے ۔قریب پہنچ کر فرمایا: ’’لوگو! میری بات سنو اورجلدی نہ کرو اگرتم انصاف کروتوسعادت پاؤ ورنہ اپنے ساتھیوں کوجمع  کرواور جو کرنا ہے کرگزرو،میں مہلت نہیں چاہتا ،میرا اللہ جس نے قرآن اتارااور جو نیکوں کو دوست رکھتا ہے‘ میرا کارسازہے ۔‘‘


           امام  کی یہ آواز ان کی بہنوں کے کان تک پہنچی بے اختیار ہو کر رونے لگیں امام نے حضرت عباس اور امام زین العابدین کو خاموش کرنے کے لئے بھیج کر فرمایا:’’ خدا کی قسم!انہیں بہت رونا ہے۔‘‘ پھر اشقیاکی طرف متوجہ ہوکرفرمانے لگے: ’’ذرا میرا نسب توبیان کرواورسوچوتو میں کون ہوں ؟…اپنے گریبان میں منہ ڈالو ،کیا میرا قتل تمہیں روا ہوسکتاہے ؟… میری بے حرمتی تم کوحلال ہوسکتی ہے؟… کیا میں تمہارے نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم) کانواسہ نہیں ؟…کیا تم نے نہ سُناکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے اور میرے بھائی کوفرمایا: تم دونوں جوانانِ اہل جنت کے سردار ہو؟…کیا اتنی بات تمہیں میری خوں ریزی سے روکنے کوکافی نہیں ؟…‘‘


          شمرمردک نے کہا:’’ہم نہیں جانتے تم کیا کہہ رہے ہو ۔‘‘حبیب بن مظہر نے فرمایا :’’اللہ عزوجل نے تیرے دل پر مہرکردی تُوکچھ نہیں جانتا ۔‘‘پھر امام مظلوم نے فرمایا :’’خداکی قسم!میرے سوا روئے زمین پر کسی نبی کا کوئی نواسہ باقی نہیں۔ بتاؤ تو میں نے تمہاراکوئی آدمی مارا؟…یامال لُوٹایاکسی کو زخمی کیا؟…آخرمجھ سے کس بات کا بدلہ چاہتے ہو ؟…‘‘کوئی جوابدہ نہ ہوا،تونام لے کرفرمایا:’’ اے شیث بن ربعی! اے حجاز بن ابجر! اے قیس بن اشعث!اے زیدبن الحارث!کیا تم نے مجھے خطوط نہ لکھے؟‘‘ وہ خبیث صاف مکر گئے۔ فرمایا:’’ضرور لکھے ۔‘‘پھر ارشاد ہوا:’’اے لوگو! اگرتم مجھے ناپسند رکھتے ہو توواپس جانے دو۔‘‘اس پر بھی کوئی راضی نہ ہوا۔پھر  فرمایا: ’’میں اپنے اور تمہارے رب عزوجلکی پناہ مانگتاہوں اس امرسے کہ مجھے سنگسار کرو اور پناہ مانگتا ہوں اس مغرور سے جو قیامت کے دن پرایمان نہ لائے ۔‘‘یہ فرماکر ناقہ شریف سے اترآئے۔


          زہیربن قین ہتھیارلگائے گھوڑے پرسوارآگے بڑھے اورکہنے لگے: ’’ اے اہلِ کوفہ !عذابِ الٰہی  جلد آتاہے ۔مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ نصیحت کرے ،ہم تم ابھی دینی بھائی ہیں ،جب تلوار اٹھے گی تم الگ گروہ ہو گے ہم الگ۔ ہمیں تمہیں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمکی اولادکے بارے میں آزمایا ہے کہ ہم تم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔میں تمہیں امام حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی مدد کے لئے بلاتا اور سرکش ابن سرکش ابن زیاد کی اطاعت سے روکنا چاہتا ہوں ، تم اس سے ظلم وستم کے سوا کچھ نہ دیکھو گے ۔‘‘


          کوفیوں نے کہا:’’جب تک تمہیں اور تمہارے سردار کو قتل نہ کرلیں یا مطیع بنا کر ابن زیادکے پاس نہ بھیج دیں ہم یہاں سے نہ ٹلیں گے ۔‘‘


          زہیر (رضی اللہ تعالٰی عنہ )نے فرمایا:’’خداکی قسم !فاطمہ کے بیٹے سمیہ کے بیٹے سے زیادہ مستحقِ محبت ونصرت ہیں ،اگرتم ان کی مدد نہ کروتوان کے قتل کے بھی درپے نہ ہو۔‘‘اس پرشمرمردودنے ایک تیرمارکرکہا:’’چپ!بہت دیر سے تونے ہمارا سر کھایا  ہے ۔ ‘ زہیر(رضی اللہ تعالٰی عنہ )نے فرمایا:’’ اوایڑیوں پرموتنے والے گنوارکے بچے ! میں تجھ سے بات نہیں کرتا،تُونراجانورہے ،میرے خیال میں تجھے قرآن کی دو آیتیں بھی نہیں آتیں ،تجھے قیامت کے دن دردناک عذاب اور رسوائی کا مژدہ ہو۔‘‘


          شمربولا:’’ کوئی گھڑی جاتی کہ تُواورتیراسردارقتل کیا جاتاہے۔‘‘


          فرمایا:’’کیا مجھے موت سے ڈراتاہے ؟خداکی قسم! ان کے قدموں پرمرناتم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ جینے سے پسند ہے ۔‘‘پھربلند آوازسے کہنے لگے:’’اے لوگو!تم کو یہ بے ادب اجڈفریب دیتااوردین حق سے بے خبرکرناچاہتا ہے ،جولوگ اہلِ بیت یاان کے ساتھیوں کو قتل کریں گے،خداکی قسم!محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت انہیں نہ پہنچے گی۔‘‘ امامِ عالی مقام (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے واپس بلایا۔ (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃ احدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۱۷ملخصاً)


          اب شقی ابن سعد نے اپنے ناپاک لشکر کو امامِ مظلوم کی طرف حرکت دی۔ حرنے کہا: ’’تجھے اللہ کی مار، کیا تو ان سے لڑے گا ؟‘‘کہا: ’’لڑوں گا اورایسی لڑائی لڑوں گاجس کا ادنیٰ درجہ سروں کا اڑنا اور ہاتھوں کا گرنا ہے ۔‘‘کہا:’’وہ تین باتیں جو انہوں نے پیش کی تھیں تجھے منظور نہیں ؟‘‘کہا: ’’میرا اختیارہوتاتومان لیتا۔‘‘ (الکامل فی التاریخ،انضمام الحر...الخ،ج۳،ص۴۲۰ملخصاً)


{حضرت حُر کی امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے معذرت}


           حر مجبورانہ لشکر کے ساتھ امام کی طرف بڑھے مگریوں کہ بدن کانپ رہا ہے اور پہلو میں دل کے پھڑکنے کی آوازبغل والے سن رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے ایک ہم قوم نے کہا :’’تمہارا یہ کام شبہ میں ڈالتا ہے ،میں نے کسی لڑائی میں تمہاری یہ کیفیت نہ دیکھی، مجھ سے اگر کوئی پوچھتاہے کہ تمام اہلِ کوفہ میں بہادرکون ہے ؟تو میں تمہارا ہی نام لیتاہوں۔‘‘بولے: ’’میں سوچتاہوں کہ ایک طرف جنت کے خوش رنگ پھول کھلے ہیں اور ایک جانب جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے بلند ہورہے ہیں اور میں اگر پرزے پرزے کر کے جلا دیا جاؤں توجنت چھوڑنا گوارانہ کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر گھوڑے کو ایڑ دی اورامام عالی مقام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ پھر عرض کی:’’اللہ مجھے حضورپر قربان کرے ،میں حضور کا وہی ساتھی ہوں جس نے حضور کوواپس جانے سے روکا، جس نے حضور کو حراست میں لیا،خداکی قسم!مجھے یہ گمان نہ تھا کہ یہ بدبخت لوگ حضورکا ارشاد قبول نہ کریں گے اور یہاں تک نوبت پہنچائیں گے ، میں اپنے جی میں کہتاتھا خیر بعض باتیں ان کی کہی کر لوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہماری اطاعت سے نکل گیا اور انجام کارتووہ حضور کا ارشادکچھ نہ کچھ مان ہی لیں گے اورخداکی قسم! مجھے یہ گمان ہو کہ یہ کچھ نہ مانیں گے تو مجھ سے اتنا بھی ہرگزواقع نہ ہو، اب میں تائب ہو کر حاضرآیا ہوں اوراپنی جان حضور پر قربان کرنی چاہتا ہوں ، کیامیری توبہ حضور کے نزدیک مقبول ہو جائے گی ؟‘‘فرمایا: ’’ہاں !اللہ عزوجل توبہ قبول کرنے والااورگناہ بخش دینے والا ہے ۔‘‘


          حُریہ مژدہ سن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے اور فرمانے لگے: ’’کیا وہ باتیں جو امام نے پیش کی تھیں منظور نہیں ؟‘‘ابن سعد نے کہا: ’’ان کا ماننا میری قدرت سے باہر ہے۔‘‘فرمایا:’’ اے کوفیو! تمہاری مائیں بے اولادی ہوں … تمہاری ماؤں کوتمہارا رونانصیب ہو …کیا تم نے امام کو دشمنوں کے ہاتھ میں دینے کے لئے بلایا تھا؟… کیاتم نے وعدہ نہ کیا تھا کہ اپنی جانیں ان پر نثارکرو گے؟ …اوراب تمھیں ان کے قتل پرآمادہ ہو ؟یہ بھی منظورنہیں کہ وہ اللہ کے کسی شہر میں چلے جائیں جہاں وہ ، ان کے بال بچے امان پائیں …تم نے انہیں قیدی بے دست وپا بنا رکھا ہے ،…فرات کا بہتا پانی جسے خداکے دشمن پی رہے ہیں اورگاؤں کے کتے سؤرجس میں لوٹ رہے ہیں …حسین اور ان کے بچوں پربند کیا گیا ہے …پیاس کی تکلیف نے انہیں زمین سے لگادیاہے …تم نے کیابرامعاملہ کیا ذریتِ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم سے …اگرتم توبہ نہ کرو اور اپنی حرکتوں سے باز نہ آؤ تواللہ تمہیں قیامت کے دن پیاسا رکھے ۔‘‘ (الکامل فی التاریخ،انضمام الحر...الخ،ج۳،ص۴۲۱ملخصاً)


{مقابلے کا باقاعدہ آغاز}


          اس کے جواب میں ان خبیثوں نے حضرتِ حر پر پتھر پھینکنے شروع کئے، یہ واپس ہو کر امام کے آگے کھڑے ہوگئے ،لشکر اشقیا سے زیاد کاغلام یساراورابن زیاد کا غلام سالم میدان میں آئے اور اپنے مقابلہ کے لئے مبارز طلب کرنے لگے ۔حضرت عبداللہ بن عمیر کلبی (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سامنے‘ آئے،دونوں بولے ہم تمہیں نہیں جانتے، زہیر بن قین یا حبیب بن مظہر یا بریر بن حضیر  کو ہمارے مقابلہ کے لئے بھیجو۔ حضرتِ عبداللہ نے یسارسے فرمایا:’’ او بدکار عورت کے بچے تُو مجھ سے نہ لڑے گا! تیری لڑائی کے لئے بڑے بڑے چاہئیں !۔‘‘ یہ فرما کر ایک ہاتھ مارا وہ قتل ہوا،سالم نے آپ پروارکیا بائیں ہاتھ سے روکا،انگلیاں اڑ گئیں ،دہنے سے وارکیا ،وہ بھی ماراگیا۔


       یہ عبداللہ کوفے سے امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور انکی بی بی اُم وہب ان کے ساتھ تھیں۔وہ خیمے کی چوب لے کر جہادکے لئے


چلیں اور اپنے شوہر سے کہا: ’’میرے ماں باپ تیرے قربان!قتال کر ان ستھرے، پاکیزہ نبی زادوں کے لئے۔‘‘ کہا :’’تم عورتوں میں جاؤ۔‘‘نہ مانا اورکہا: ’’تمہارے ساتھ مروں گی ۔‘‘آخرحضرت امام نے آوازدی کہ’’ اے بی بی! اللہ تجھ پر رحمت کرے ،پلٹ آکہ جہادعورتوں پر فرض نہیں۔‘‘ واپس آئیں۔پھر ابن سعد کے میمنہ سے عمرو بن الحجاج اپنے سوار لے کر آگے بڑھا ،امام  کے ساتھیوں نے گھٹنوں کے بل جھک کر نیزے سامنے کئے، گھوڑے نیزوں کی سنانوں پر نہ بڑھ سکے ،پیچھے پلٹے تو ادھر سے تیر چلائے گئے ۔وہ کتنے ہی زخمی ہوئے، کتنے ہی مارے گئے ۔


          ایک مردک ابن حوزہ نے پوچھا: ’’کیاتم میں حسین ہیں ؟‘‘کسی نے جواب نہ دیا،  تین بارپوچھا،لوگوں نے کہا :’’تیراکیا کام ہے؟ ‘‘بولا:’’اے حسین!تمہیں آگ کی بشارت  ہو۔‘‘فرمایا: ’’توجھوٹاہے ،میں اپنے مہربان رب کے پاس جاؤں گا۔‘‘ پھر اس کا نام پوچھا ۔کہا :ابن حوزہ۔دعا فرمائی: اللھُمَّ خُذْہُ اِلَی النَّارِالٰہی! اسے آگ کی طرف سمیٹ ۔‘‘یہ سن کروہ مردود غضب ناک ہوا، حضورکی طرف گھوڑا چمکایا، قدرتِ خدا کہ گھوڑا بھڑکا اور یہ پھسلا، ایک پاؤں رکاب میں الجھ کر رہ گیا،اب گھوڑا اُڑا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس مردود کی ران اور پنڈلی ٹوٹی، سر پتھروں سے ٹکراٹکراکر پاش پاش ہوگیا، آخر اسی حال میں واصلِ جہنم ہوا۔ مسروق بن وائل حضرمی، امامِ مظلوم کے سرِمبارک لینے کی تمنا میں آیا تھا۔ابن حوزہ کایہ حال دیکھ کرکہنے لگا:خداکی قسم!میں تو اہلِ بیت سے کبھی نہ لڑوں گا، پھر یزید بن معقل،حضرت بریر سے کہنے لگا: ’’خدا  نے تمہارے ساتھ کیاکیا؟‘‘فرمایا: ’’اچھا کیا ۔‘‘کہا:’’تم نے جھوٹ کہا اورمیں تم کو آج سے پہلے جھوٹا نہ جانتاتھا،میں گواہی دیتا ہوں کہ تم گمراہ ہو ۔‘‘فرمایا: ’’تو آؤ ہم تم مباہلہ کرلیں کہ اللہ جھوٹے پر لعنت کرے اورجھوٹا سچے کے ہاتھ سے قتل ہو ۔‘‘ وہ راضی ہو گیا۔مباہلہ کے بعد ابن معقل نے تلوارچھوڑی ،خالی گئی، حضرت بری (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے وارکیا ،خَود کاٹتاہوابھیجا چاٹ گیا۔یہ دیکھ کر رضی بن منقذ عبدی دوڑا اور حضرت بریر(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے لپٹ گیا ،کشتی ہونے لگی ،حضرت بریر (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے دے مارااوراس کے سینے پر چڑھ بیٹھے ،پیچھے سے کعب بن جابرازدی نے نیزہ ماراکہ پشت مبارک میں غائب ہو گیا ،نیزہ کھا کر رضی کے سینے سے اترے اور اس مردک کی ناک دانتوں سے کاٹ لی کعب نے تلوار ماری کہ شہید ہوئے، جب کعب پلٹا،اس کی عورت نے کہا:’’ میں تجھ سے کبھی بات نہ کروں گی ،تو نے فاطمہ کے بیٹے کے ہوتے دشمن کومدددی اورعالموں کے سردار بریر (رضی اللہ تعالٰی عنہ )  کوشہیدکیا ۔‘‘ (الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۲۱ملخصاً)


          پھرامام کی جانب سے عمروبن قرظہ انصاری (رضی اللہ تعالٰی عنہ )  نکلے اورسخت لڑائی کے بعد شہید ہوئے۔ حضرتِ حرنے قتال شدید کیا ۔یزید بن سفیان ان کے سامنے آیا ،انہوں نے اسے قتل فرمایا،نافع بن ہلال مرادی (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) میدان میں آئے،مزاحم بن حریث ان کامزاحم ہوا۔ مرادی بامرادنے اس نامرد نامراد کوقتل کیا ،یہ حالت دیکھ کرعمروبن الحجاج چلایا:’’اے لوگو! تم جانتے ہو کن سے لڑرہے ہو ؟تمہارے سامنے وہ بہادر ہیں جنہیں مرنے کا شوق ہے،ایک ایک ان سے میدان نہ کرو ،وہ بہت کم ہیں ،خداکی قسم !تم سب مل کر پتھرماروگے توقتل کرلو گے۔‘‘


          ابن سعد نے یہ رائے پسند کرکے لو گوں کوتنہا میدان کرنے سے روک دیا ،پھر عمرو بن الحجاج نے فرات کی طرف سے حملہ کیا۔اس حملہ میں مسلم بن عوسجہ اسدی (رضی اللہ تعالٰی عنہ )  نے شہادت پائی ۔عمروپلٹ گیا ،ان میں ابھی رمق باقی تھی ،حبیب بن مظہر نے کہا: ’’تمہیں جنت کامژدہ ہو،تمہاراگرنامجھ پر سخت شاق ہوا،میں ابھی عنقریب تم سے ملا چاہتا ہوں ،مجھے کوئی وصیت کروکہ اس پر عمل کروں۔‘‘مسلم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے حضرت امام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:’’ان پرقربان ہو جانا۔‘‘حبیب نے کہا ایسا ہی ہوگا ۔ پھر خبیث ابن سعد نے پانسو تیر انداز ابن نمیر کے ساتھ جماعت ِامام پربھیجے ۔اب تین دن کے پیاسوں پر تیروں کا مینہ برسنا شروع ہو گیا ،امام کے ساتھی گھوڑوں سے اتر کر پیادہ ہو لئے اوریہ پیادہ ہونا اس مصلحت سے تھا کہ اس ناگہانی بلا سے کہ ایک ساتھ پانسو تیر چٹکیوں سے نکل رہا ہے ، گھبرا کرپاؤں نہ اکھڑ جائیں ،مارنا مرنا جوکچھ ہونا ہے یہیں ہو جائے ۔امام کوچھوڑ کر بھاگنے اور پیٹھ دکھانے کی راہ نہ رہے۔ حضرتِ حر سخت لڑائی لڑے، یہاں تک کہ دوپہر ہو گیا ،ان پانسو نے ان کے تیس ساتھیوں پر کچھ قدرت نہ پائی ۔


          جب شقی ابن سعد نے یہ حال دیکھا کہ سامنے سے جانے کی طاقت نہیں ،اس میدان کے دہنے بائیں کچھ مکان واقع تھے ،ان میں لوگ بھیجے کہ جماعتِ امام پر دہنے بائیں سے بھی حملہ ہو سکے ۔امام مظلوم کے تین چارساتھی پہلے سے بیٹھ رہے، جوکودا، مارلیا ۔ ابن سعد نے جل کر کہا کہ’’ مکانات میں آگ لگا دی جائے ۔‘‘امام نے فرمایا:’’جلا لینے دو،جب آگ لگ جائے گی توادھر سے حملے کا اندیشہ نہ رہے گا ۔‘‘      (الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۲۳ملخصاً)


          شمر مردود حملہ کرکے خیمہ اطہرکے قریب پہنچا اور جنت والوں کاخیمہ پھونکنے کو جہنمی نے آگ مانگی ۔اس کے ساتھی حمید بن مسلم نے کہا کہ ’’خیمے کو آگ دے کر عورتوں ،بچوں کوقتل کرنا ہرگز مناسب نہیں۔‘‘اس دوزخی نے نہ مانا ۔شیث بن ربعی کوفی نے کہ اس ناپاک لشکر کے سرداروں میں تھا،اس ناری کو آ گ لگانے سے باز رکھا۔ اس عرصے میں حضرت زہیربن قین دس صاحبوں کے ساتھ شمر مردودکے لشکر پر ایسی سختی سے حملہ آورہوئے کہ ان بد بختوں کو بھاگتے اور پیٹھ دکھاتے ہی بن پڑی۔اس حملے میں ابوعزہ مارا گیا ۔دشمنوں نے جمع ہو کر ان گیارہ پرپھر ہجوم کیا ۔ان میں سے جتنے مارے جاتے کثرت کی وجہ سے معلوم بھی نہ ہوتے اور ان میں کاایک بھی شہید ہوتا توسب پر ظاہر ہوجاتا ۔اسی عرصہ میں نمازِ ظہرکاوقت آگیا ۔حضرت ابوثمامہ الصائدی نے امام سے عرض کی:’’میری جان حضورپرقربان میں دیکھتا ہوں کہ اب دشمن پاس آگئے ، خداکی قسم !جب تک میں اپنی جان حضور پرنثار نہ کرلوں ،حضور شہید نہ ہوں گے، مگر آرزویہ ہے کہ ظہرپڑھ کراللہ تعالٰی سے ملوں۔‘‘امام نے فرمایا: ’’ہاں !یہ اول وقت ہے ،ان سے کہو اس قدر مہلت دیں کہ ہم نماز پڑھ لیں۔‘‘امام کی کرامت کہ یہ بات ان بے دینوں نے قبول کرلی ۔


          ابن نمیر مردک نے کہا ’’یہ نمازقبول نہ ہوگی ۔‘‘حضرت حبیب بن مظہر (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے فرمایا: ’’آلِ رسول کی نماز قبول نہ ہو گی اور اے گدھے تیری قبول ہوگی ؟‘‘ اس نے ان پر وارکیا،انہوں نے خالی دے کر تلوارماری ،گھوڑے پرپڑی ،گھوڑا گرااور اس کے ساتھ وہ مردود بھی زمین پر آیا،اس کے ہمراہی جلدی کرکے اسے اٹھا لے گئے۔ پھر انہوں نے قتال شدید کیا ۔بنی تمیم سے بدیل بن صریم کوقتل فرمایا ،دوسرے تمیمی نے ان کے نیزہ مارا ،اٹھناچاہتے تھے کہ ابن نمیر خبیث نے تلوار چھوڑدی ،شہید ہوگئے ، رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ان کی شہادت کا امام کو سخت صدمہ ہوا۔


          اب حضرت حر اور زہیر بن قین (رضی اللہ تعالٰی عنہما) نے یہ شروع کیا کہ ایک ان خبیثوں پر حملہ فرماتے، جب وہ اس ہربونگ میں گھر جاتے ،دوسرے لڑبھڑ کر چھٹا لاتے ،جب یہ گھِرکرغائب ہو جاتے ،وہ پہلے حملہ کرتے اور بچالاتے ۔دیر تک یہی حالت رہی پھر پیادوں کا لشکر حضرت حر پرٹوٹ پڑا اورانہیں شہید کیا ۔       (الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۲۵ملخصاً)


          روضۃ ا لشہداء میں ہے جب حرزخمی ہو کرگرے امام کوآوازدی ،حضرت بے قرار ہوکرتشریف لے گئے اورسخت جنگ فرما کر اٹھا لائے ،زمین پر لٹا دیا اور ان کاسر اپنے زانوپر رکھ کر پیشانی اور رخساروں کی گرد دامن سے پونچھنے لگے ۔حر نے آنکھ کھول دی اوراپناسر امام کے زانو پرپاکرمسکرائے اور عرض کی: ’’حضور!اب تومجھ سے خوش ہوئے؟‘‘   فر مایا’’ ہم راضی ہیں ،اللہ بھی تم سے راضی ہو ۔‘‘حر نے یہ مژدہ جاں فزا سن کرامام پر نقد جاں نثارکیا اوربہشت بریں کی راہ لی ۔     ؎


آرزو یہ ہے کہ نکلے دم تمہارے سامنے


تم ہمارے سامنے ہو ہم تمہارے سامنے


صلائے قصہ خواں فرقت کی شب سو یہ کہانی ہے


تیرے زانو ہی کے تکیے پہ مجھ کو نیند آنی ہے


       حر کی شہادت کے بعد سخت لڑائی شروع ہوئی دشمن کٹتے جاتے اور آگے بڑھتے جاتے ،کثرت کی وجہ سے کچھ خیال میں نہ لاتے یہاں تک کہ امام کے قریب پہنچ گئے اور تشنہ کاموں پرتیروں کامینہ برسانا شروع کردیا،یہ حالت دیکھ کر حضرت حنفی نے امام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے لے لیا اوراپنے چہرے اور سینے کو امام کی سپر بنا کر کھڑے ہوگئے۔ دشمن کی طرف سے تیر پرتیر آرہے ہیں اور یہ کامل اطمینان اور پوری خوشی کے ساتھ زخم پرزخم کھارہے ہیں۔اس وقت اس شرابِ محبت کے متوالے نے اپنے معشوق ،اپنے دلربا حسین کو پیٹھ کے پیچھے لے کر جنگِ احد کا سماں یاد دلا یا ہے ،وہاں بھی ایک عاشق جانباز مسلمانوں کی لڑائی بگڑ جانے پر سید المحبوبین صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دشمنوں کے حملوں کی سپر بن کر آکھڑا ہواتھا، یہ حضرت سعد بن ابی وقاص  تھے رضی اللہ تعالٰی عنہ  ، حضورپُرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم انہیں کے پیچھے قیام فرماتھے اوردشمنوں کے دفع کرنے کو ترکش سے تیر عطا فرماتے جاتے اور ہرتیر پرارشاد ہوتا  ’’ اِرْمِ سَعْد بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ ‘‘ تیر ماراے سعد! تجھ پر میرے ماں باپ قربان ۔اللہ کی شان، جنگِ احد میں حضرت سعد (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی جاں نثاری کی وہ کیفیت کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی سپربن گئے اور دشمنوں کوقریب نہ آنے دیا اورواقعہ کربلا میں ابن سعد کی زیاں کاری کی یہ حالت کہ دشمنوں کو رسول اللہصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے کے مقابلہ پر لایا ہے۔ بزرگوار باپ کے تیر اسلام کے دشمنوں پر چل رہے تھے، ناہنجار بیٹے کے تیر مسلمانوں کے سردار پر چھوٹ رہے ہیں۔ 


ببیں تفاوت رہ ازکجاست تابکجا


          غرض حضرت حنفی نے امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے سامنے یہاں تک تیر کھائے کہ شہید ہو کرگرپڑے رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ،حضرت زہیربن قین(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے اس طوفان بے تمیزی کے روکنے میں جان توڑ کوشش کی اور سخت لڑائی لڑکر شہید ہوگئے ۔حضرت نافع بن ہلال (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے تیروں پر اپنا نام کندہ کراکر زہرمیں بجھایا تھا ۔ان سے بارہ شقی قتل کئے اوربے شمارزخمی کرڈالے ۔دشمن ان پر بھی ہجوم کر آئے،دونوں بازوؤں کے ٹوٹ جانے کے سبب سے مجبورہو کر گرفتارہوگئے ۔شمر خبیث انہیں ابن سعدکے پاس لے گیا۔ ہلال کے چاندکاچہرہ خون سے بھرا تھا اور وہ بپھراہواشیرکہہ رہا تھا :’’میں نے تم میں کے۱۲ گرائے اوربے گنتی گھائل کئے ،اگرمیرے ہاتھ نہ ٹوٹتے تو میں گرفتار نہ ہوتا۔‘‘ شمر نے ان کے قتل پر تلوار کھینچی، فرمایا: ’’تومسلمان ہوتا ،توخداکی قسم! ہماراخون کرکے خدا سے ملنا پسندنہ کرتا،اس خداکے لئے تعریف ہے جس نے ہماری موت بدترانِ خلق کے ہاتھ پر رکھی۔‘‘شمر نے شہید کردیا۔پھر باقی مسلمانوں پر حملہ آورہوا امام کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب ان میں امام کی حفاظت کرنے کی طاقت نہ رہی ،شہید ہونے میں جلدی کرنے لگے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ ہمارے جیتے جی امام عرش مقام کو کوئی صدمہ پہنچے ۔ حضرت عبداللہ وعبد الرحمن پسرانِ عروہ غفاری اجازت لے کر بڑھے اورلڑائی میں مشغول ہو کر شہید ہو گئے ۔


          سیف بن حارث اور مالک بن عبد(رضی اللہ تعالٰی عنہما)  کہ دونوں ایک ماں کے بیٹے اور باپ کی طرف سے چچا زاد تھے ،حاضرِ خدمت ہو کر رونے لگے۔امام نے فرمایا: ’’کیوں روتے ہو؟کچھ ہی دیر باقی ہے کہ اللہ تعالٰی تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔‘‘ عرض کی:’’ واللہ! ہم اپنے لئے نہیں روتے بلکہ حضور کے واسطے روتے ہیں کہ اب ہم میں حضورکی محافظت کی طاقت نہ رہی ۔‘‘ فرمایا:’’ اللہ تم کو جزائے خیر دے ۔‘‘ بالآخر یہ دونوں بھی رخصت ہو کر بڑھے اور شہید ہوگئے۔


          حنظلہ بن اسعد(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے امام کے سامنے قرآن مجید کی کچھ آیاتیں پڑھیں اور کوفیوں کو عذابِ الہی سے ڈرایا مگروہاں ایسی کون سنتا تھا ،یہ بھی سلام کر کے گئے اور دادِ شجاعت دے کرشہید ہوگئے ۔شوذب بن شاکر(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) رخصت پاکر بڑھے اور شہادت پا کر دار السلام پہنچے ۔حضرت عابس (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) اجازت لے کر چلے اور مبارِزمانگا ان کی مشہور بہادری کے خوف سے کوئی سامنے نہ آیا۔ ابن سعدنے کہا:’’انہیں پتھروں سے مارو ۔‘‘چاروں طرف سے پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ جب انہوں نے ان نامردوں کی یہ حرکت دیکھی، طیش میں بھر کر زرہ اتار، خود پھینک، حملہ آور ہوئے ،دم کے دم میں سب کو بھگادیا۔ دشمن پھر حواس جمع کر کے آئے اور انہیں بھی شہید کیا ۔ یزید بن ابی زیاد کندی (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے جو کوفے کے لشکر میں تھے اورنارسے نکل کرنورمیں آگئے تھے ،دشمنوں پر تیر مارنے شروع کئے ،ان کے ہرتیر پرامام نے دعافرمائی: ’’الٰہی! اس کا تیر خطانہ ہو اوراسے جنت عطافرما۔‘‘سوتیر مارے جن میں پانچ بھی خطانہ گئے ،آخر کارشہید ہوئے ۔اس واقعہ میں سب سے پہلے انہوں ہی نے شہادت پائی اورشہیدانِ کربلا کی ترتیب وار فہرست، انہیں کے نام سے شروع ہوئی ہے ،عمرو بن خالد مع سعد مولی وجباربن حارث ومجمع بن عبیداللہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) لڑتے لڑتے دشمنوں میں ڈوب گئے ۔اس وقت اشقیا نے سخت حملہ کیا ،حضرت عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) حملہ فرماکر چھڑا لائے ۔زخموں میں چُور تھے اسی حال میں دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ۔


{ چمنِ رسالت کے مہکتے پھولوں کی شہادت کی ابتدا}


          اب امام کے وفادار اور جاں نثار سپاہیوں میں چندرشتہ داروں کے سوا کوئی باقی نہ رہا ،ان حضرات میں سب سے پہلے جودشمنوں کے مقابلہ پرتشریف لائے امام کے صاحبزادے حضرت علی اکبر   (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) ہیں۔شیروں کے حملے مشہورہیں ، پھر یہ شیرتو محمدی کچھارکا شیرہے ۔اسکے جھنجھلائے ہوئے حملہ سے خدا کی پناہ ،دشمنوں کو قہرِالٰہی  کانمونہ دکھا دیا ،جس نے سراٹھایانیچا دکھا یا ۔ صف شکن حملوں سے جدھر بڑھے، دشمن کائی کی طرح پھٹ گئے ،دیر تک قتال کرتے اور قتل فرماتے رہے،پیاس اور ترقی پکڑگئی، واپس تشریف لائے اوردم راست فرما کر پھر حملہ آور ہوئے اوردشمنوں کی جان پر وہی قیامت برپا کر دی ۔چند بار ایساہی ہوا، یہاں تک کہ مرہ بن منقذ عبدی شقی کا نیزہ لگا اور بد بختوں نے تلواروں پر رکھ لیا ۔ جنت علیا میں آرام فرمایا۔نوجوان بیٹے کی لاش پر امام نے فرمایا: ’’بیٹے! خداتیرے شہید کرنے والے کو قتل کرے ،تیرے بعد دنیا پر خاک ہے ،یہ قوم اللہ سے کتنی بے باک اور رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے حرمتی پر کس قدر جری ہے۔‘‘ پھر نعش مبارک اٹھاکر لے گئے اورخیمہ کے پاس رکھ لی پھر عبداللہ بن مسلم لڑائی پر گئے اور شہید ہوئے ۔ (الکامل فی التاریخ،وکان اول من قتل...الخ،ج۳،ص۴۲۸ملخصاً)


          اب اعدا نے چارطرف سے نرغہ کیا ۔اس نرغے میں عون بن عبداللہ بن حضرت جعفر طیاراور عبدالرحمن وجعفر ،پسرانِ عقیل نے شہادتیں پائیں۔ پھر حضرتِ قاسم، حضرت امام حسن(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے صاحبزادے حملہ آورہوئے اورعمروبن سعد بن نفیل مردودکی تلوارکھاکر زمین پرگرے ،امام کوچچا!کہہ کرآوازدی،امام شیرِغضبناک کی طرح پہنچے، اور عمرومردودپرتلوار چھوڑی ،اس نے روکی،ہاتھ کہنی سے اڑ گیا ۔وہ چلایا ،کوفے کے سوار اس کی مدد کو دوڑے اور گردوغبارمیں اسی کے ناپاک سینے پر گھوڑوں کی ٹاپیں پڑگئیں۔


          جب گردچھٹی تو دیکھا ،امام حضرت قاسم کی لاش پر فرما رہے ہیں :’’قاسم! تیرے قاتل رحمتِ الٰہی سے دور ہیں ، خداکی قسم! تیرے چچا پرسخت شاق گزرا کہ تُو پکارے اور وہ تیری فریاد کو نہ پہنچ سکے۔‘‘ پھر انہیں بھی اپنے سینے پر اٹھا کر لے گئے اور حضرتِ علی اکبر کے برابر لٹادیا۔اسی طرح یکے بعد دیگرے حضرت عباس اوران کے تینوں بھائی  اور امام  کے دوسرے صاحبزادے حضرت ابو بکر اور سب بھائی بھتیجے (رضی اللہ تعالٰی عنہم) شہید ہو گئے۔ اللہ انہیں اپنی وسیع رحمتوں کے سائے میں جگہ دے اور ہمیں ان کی برکات سے بہرہ مند فرمائے ۔


          اب امام مظلوم تنہا رہ گئے ،خیمے میں تشریف لا کر اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو(جو عوام میں علی اصغر مشہور ہیں )گودمیں اٹھاکر میدان میں لائے، ایک شقی نے تیر مارا کہ گودہی میں ذبح ہوگئے ،امام نے ان کا خون زمین پرگرایا اوردعا کی: ’’ الٰہی! اگرتونے آسمانی مدد ہم سے روک لی ہے تو انجام بخیر فرما اور ان ظالموں سے بدلہ لے۔‘‘ (الکامل فی التاریخ،وکان اول من قتل...الخ،ج۳،ص۴۲۹ملخصاً)


پھول کھِل کھِل کربہاریں اپنی سب دکھلا گئے


حسرت ان غنچوں پر ہے جو بے کھلے مرجھا گئے


اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی الہ وصحبہ اجمعین { امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید ہوتے ہیں }


          حسن وعشق کے باہمی تعلقات سے جو آگاہ ہیں ،جانتے ہیں کہ وصل ِدوست جسے چاہنے والے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ،بغیر مصیبتیں اٹھائے اور بلائیں جھیلے حاصل نہیں ہوتا ۔


رباعی


اے دل بہوس برسر ِکارے نرسی


تاغم نہ خوری بغم گسارے نرسی


تاسودہ نہ گردی چوحنا در تہ سنگ


ہرگز بکفِ پائے نگارے نرسی


          دل میں نشتر چبھو کرتوڑدیتے اورکلیجے میں چھریاں مارکرچھوڑدیتے ہیں اورپھر تاکیدہوتی ہے کہ اُف کی توعاشقوں کے دفترسے نام کاٹ دیاجائے گا ۔غرض پہلے ہرطرح اطمینان کر لیتے اورامتحان فرما لیتے ہیں ،جب کہیں چلمن سے ایک جھلک دکھانے کی نوبت آتی ہے ۔


                                               


رباعی


خوباں دل وجاں بینوا می خواہند         زخمے کہ زنند مرحبا می خواہند


ایں قوم ایں قوم چشم بددُورایں قوم    خون می ریزند وخوں بہا می خواہند


    اوریہ امتحان کچھ حسینانِ زمانہ ہی کادستورنہیں،حسنِ ازل کی دلکش تجلیوں اور دلچسپ جلوؤں کا بھی معمول ہے کہ فرمایا جاتاہے :


وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-( (پ۲،البقرۃ:۱۵۵)


ترجمہ کنزالایمان: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے)


    جب ان کَڑیوں کو جھیل لیا جاتا اور ان تکلیفوں کو برداشت کر لیا جاتا ہے توپھر کیاپوچھنا؟ سراپردۂ جمال ترسی ہوئی آنکھوں کے سامنے سے اٹھا دیا جاتا اور مدت کے بے قرار دل کوراحت وآرام کا پتلا بنا دیا جاتا ہے ۔اسی بنیاد پرتومیدانِ کربلا میں امامِ مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وطن سے چھڑا کر پردیسی بنا کر لائے ہیں اورآج صبح سے ہمراہیوں اوررفیقوں بلکہ گود کے پالوں کو ایک ایک کر کے جدا کر لیا گیا ہے۔کلیجے کے ٹکڑے خون میں نہائے آنکھوں کے سامنے پڑے ہیں ،ہری بھری پھلواڑی کے سہانے اورنازک پھول پتی پتی ہو کر خاک میں ملے ہیں اور کچھ پرواہ نہیں ،پرواہ ہوتی توکیوں ہوتی؟ کہ راہ دوست میں گھر لٹانے والے اسی دن کے لیے مدینہ سے چلے تھے، جب توایک ایک کوبھیج کر قربان کرادیا اورجواپنے پاؤں نہ جاسکتے تھے ،ان کو ہاتھوں پر لے کر نذرکرآئے ۔ کہاں ہیں وہ ملائکہ جو حضرت انسان کی پیدائش پر چون وچرا کرتے تھے، اپنی جانمازوں اور تسبیح وتقدیس کے مصلوں سے اٹھ کر آج کربلا کے میدان کی سیر کریں اور  ’’اِنِّیْۤ  اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ‘‘ (پ۱،البقرۃ:۳۰) کی شاندار تفصیل حیرت کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں۔     اس دل دکھانے والے معرکے میں امتحان سبھی کا منظور تھا، مگرحسینِ مظلوم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصلی اوراَوروں کا طفیلی، اگرایسا نہ ہوتا توممکن تھا کہ دشمنوں کے ہاتھ سے جوصرف امام رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے دشمن امام ہی کے خون کے پیاسے تھے، پہلے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کرادیا جاتا۔ اللہ اکبر !اس وقت کس قیامت کا دردناک منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔امام مظلومِ رضی اللہ تعالٰی عنہاپنے گھر والوں سے رخصت ہورہے ہیں،بیکسی کی حالت ،تنہائی کی کیفیت،تین دن کے پیاسے،مقدس جگر پر سینکڑوں تیر کھائے،ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پرجانے کاسامان فرما رہے ہیں،اہل بیت رضی اللہ تعالٰی عنہمکی صغیر سن صاحبزادیاں،دنیا میں جن کی ناز برداری کا آخری فیصلہ ان کی شہادت کے ساتھ ہونے والا ہے ،بے چین ہوہو کر رورہی ہیں بے کس سیدانیاں، یہاں جن کے عیش،جن کے آرام کا خاتمہ ان کی رخصت کے ساتھ خیربادکہنے والا ہے ،سخت بے چینی کے ساتھ اشکبارہیں۔ اوربعض وہ مقدس صورتیں جن کو بے کسی کی بولتی ہوئی تصویر کہنا ہر طریقے سے درست ہوسکتاہے جن کا سہاگ خاک میں ملنے والا اور جن کا ہر آسراان کے مقدس دم کے ساتھ ٹوٹنے والا ہے ر وتے روتے بے حال ہو گئی ہیں ان کے اُڑے ہوئے رنگ والے چہرے پر سکوت اور خاموشی کے ساتھ مسلسل اورلگاتار آنسوؤں کی روانی صورتِ حال دکھا دکھا کر عرض کر رہی ہے:     ؎


می روی و گریہ می آید مرا


ساعتے بنشیں کہ باراں بگزرد


          اس وقت حضرت امام زین العابدین (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے دل سے کوئی پوچھے کہ حضور کے ناتواں دل نے آج کیسے کیسے صدمے اٹھائے اوراب کیسی مصیبت جھیلنے کے سامان ہو رہے ہیں۔ بیماری،پردیس ،بچپن کے ساتھیوں کی جدائی، ساتھ کھیلے ہوؤں کا فراق،پیارے بھائیوں کے داغ نے دل کاکیا حال کر رکھا ہے؟اب ضدیں پوری کرنے والے اور ناز اٹھانے والے مہربان باپ کاسایہ بھی سرِمبارک سے اٹھنے والا ہے اس پرطرّہ یہ کہ ان مصیبتوں ،ان ناقابلِ برداشت تکلیفوں میں کوئی بات پوچھنے والابھی نہیں۔    


درد دل اٹھ اٹھ کے کس کا راستہ تکتا ہے تو


پوچھنے والا مریض بے کسی کا کون ہے


       اب امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) بچوں کو کلیجے سے لگا کر، عورتوں کو صبر کی تلقین فرما کر آخری دیدار دکھا کر تشریف لے چلے ہیں۔


از پیش من آں رشک چمن میگزرد


چوں روح روانیکہ زتن میگزرد


حال عجبے روزِ وداعش دارم


من از سرو جاں از من میگزرد


          ہائے ! اس وقت کوئی اتنا بھی نہیں کہ رکاب تھام کرسوارکرائے یا میدان تک ساتھ جائے۔ہاں !کچھ بے کس بچوں کی دردناک آوازیں اور بے بس عورتوں کی مایوسی بھری نگاہیں ہیں ،جو ہر قدم پر امام کے ساتھ ساتھ ہیں ،امام مظلوم کاجوقدم آگے پڑتا ہے، ’’یتیمی ‘‘بچوں اور’’بے کسی‘‘عورتوں سے قریب ہوتی جاتی ہے۔ امام کے متعلقین ، امام کی بہنیں جنہیں ابھی صبر کی تلقین فرمائی گئی تھی،اپنے زخمی کلیجوں پر صبر کی بھاری سل رکھے ہوئے سکوت کے عالم میں بیٹھی ہیں ،مگر ان کے آنسوؤں کا غیر منقطع سلسلہ، ان کے بے کسی چھائے ہوئے چہروں کا اڑاہوارنگ ،جگرگوشوں کی شہادت ، امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی رخصت، اپنی بے بسی ،گھر بھر کی تباہی پر زبانِ حال سے کہہ رہا ہے ۔     


مجھ کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر قافلہ سارا روانہ ہو گیا


تاریخ کا پچھلا حصہ اور امام تشنہ کام کی شہادت


باغ جنت کے ہیں بہر مدح خوانِ اہل بیت


تم کو مژدہ نارکا اے دشمنانِ اہل بیت


کس زباں سے ہو بیان عزوشانِ اہل بیت


مدح گوئے مصطفی ہے مدح خوانِ اہل بیت


ان کی پاکی کاخدائے پاک کرتاہے بیاں


آیۂ تطہیر سے ظاہرہے شانِ اہل بیت


مصطفی عزت بڑھانے کے لئے تعظیم دیں


ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہل بیت


ان کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں


قدروالے جانتے ہیں قدر و شانِ اہل بیت


مصطفٰی  بائع خریدار   اس کا  اللہُ اشْتَرٰی


خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہل بیت


رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہِ حسن وعشق


کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہل بیت


پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے


خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہل بیت


حوریں کرتی ہیں عروسانِ شہادت کا سنگار


خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہل بیت


ہوگئی تحقیقِ عید دیدِ آبِ تیغ سے


اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہل بیت


جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج


کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہل بیت


اے شبابِ فصلِ گل!یہ چل گئی کیسی ہوا


کٹ رہا ہے لہلہاتا بوستانِ اہل بیت


کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے؟


دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہل بیت


خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات


خاک تجھ پردیکھ تو سوکھی زبانِ اہلِ بیت


خاک پر عباس و عثمان علم بردار ہیں

بے کسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہل بیت


تیری قدرت جانورتک آب سے سیراب ہوں


پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبا نِ اہلِ بیت


قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر


وارثِ بے وارثان کو کاروانِ اہل بیت


فاطمہ کے لاڈلے کاآخری دیدار ہے


حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہل بیت


وقت ِرخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ


لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہل بیت


ابرِفوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے


فاطمہ کا چاند مہرِ آسمانِ اہل بیت


کس مزے کی لذتیں ہیں آبِ تیغِ یار میں


خاک وخون میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہل بیت


باغِ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا


اے زہے قسمت تمہا ری کشتگانِ اہل بیت


حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سرکھولے ہوئے


آج کیسا حشر ہے یارب([1]) میانِ اہل بیت


کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بے کسی


آج کیسا ہے مریضِ نیم جانِ اہل بیت


گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے


جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہل بیت


سرشہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند


اور اونچی کی خدانے قدروشانِ اہل بیت


دولت دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر


کربلا میں خوب ہی چمکی دوکانِ اہل بیت


زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا


خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہل بیت


اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے


کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہل بیت


اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں


لَعْنَۃُ اللہِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہل بیت


بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دے اے حسنؔ

یوں کہا کرتے ہیں سنی داستان اہل بیت


          اے کوثر! اپنے ٹھنڈے اورخوشگوار پانی کی سبیل تیاررکھ کہ تین دن کے پیاسے تیرے کنارے جلوہ فرمائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


          اے طوبیٰ !اپنے سائے کے دامن اور درازکر،کربلا کی دھوپ کے لیٹنے والے تیرے نیچے آرام لیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


          آج میدانِ کربلا میں جنتوں سے حوریں سنگارکئے ،ٹھنڈے پانی کے پیالے لئے حاضر ہیں …آسمان سے ملائکہ کی لگاتارآمد نے سطح ہوا کو بالکل بھر دیا ہے اورپاک روحوں نے بہشت کے مکانوں کو سونا کر دیا …خود حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ طیبہ سے اپنے بیٹے لاڈلے حسین کی قتل گاہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں … ریشِ مبارک اورسرِاطہر کے بال گرد میں اَٹے ہوئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھا ہواہے … دستِ مبارک میں ایک شیشہ ہے، جس میں شہیدوں کا خون جمع کیا گیاہے …اور اب مقدس دل کے چین پیارے حسین کے خون بھرنے کی باری ہے۔


بچہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مندے


کہ بوقتِ جان سپردن بسرش رسیدہ باشی


          غرض آج کربلامیں حسینی میلا لگا ہوا ہے …حوروں سے کہوکہ اپنی خوشبودار چوٹیاں کھول کر کربلا کا میدان صاف کریں کہ تمہاری شہزادی ،تمہاری آقائے نعمت فاطمہ زہرا(رضی اللہ تعالٰی عنہا) کے لال کے شہید کرنے اورخاک پر لٹائے جانے کا وقت قریب آگیا ہے …رضوان کو خبردوکہ جنتوں کوبھینی بھینی خوشبوؤں سے بسا کر دلکش آرائشوں سے آراستہ کر کے دلہن بنارکھے کہ بزمِ شہادت کادولھا بہتے خون کا سہرا باندھے زخموں کے ہار گلے میں ڈالے عنقریب تشریف لانے والا ہے ۔


ساعت آہ و بکا و بے قراری آگئی


سیدِ مظلوم کی رَن میں سواری آگئی


ساتھ والے بھائی بیٹے ہو چکے ہیں سب شہید


اب امامِ بے کس و تنہا کی باری آگئی


             امام نے شمر خبیث کو خیمۂ اطہر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کرفرمایا:’’ خرابی ہو تمہارے لئے اگردین نہیں رکھتے اور قیامت سے نہیں ڈرتے توشرافت سے تو نہ گزرو،میرے اہل بیت سے اپنے جاہل سرکشوں کو روکو،دشمن ادھر سے بازرہے ۔‘‘ اب چارطرف سے امام مظلوم ، جنہیں شوقِ شہادت ہزاروں دشمنوں کے مقابلے میں اکیلا کر کے لایا ہے، نرغہ ہوا ۔امام د ہنی طرف حملہ فرماتے تودورتک سواروں اور پیادوں کا نشان نہ رہتا ،بائیں جانب تشریف لے جاتے تودشمنوں کو میدان چھوڑ کربھاگنا پڑتا ۔


خداکی قسم!وہ فوج اس طرح ان کے حملوں سے پریشان ہوتی جیسے بکریوں کے گلہ پرشیر آپڑتا ہے ،لڑائی نے طول کھینچا ہے ،دشمنوں کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں ، ناگاہ امام کا گھوڑابھی کام آگیا ،پیادہ ایسا قتال فرمایا کہ سواروں سے ممکن نہیں۔


          تین دن کے پیاسے تھے ایک بدبخت نے فرات کی طرف اشارہ کر کے کہا:’’وہ دیکھئے کیساچمک رہا ہے ،مگرتم اس میں سے ایک بوند نہ پاؤگے یہاں تک کہ پیاسے ہی مارے جاؤ گے ۔‘‘فرمایا:’’اللہ!تجھ کو پیاسا قتل کرے ۔‘‘فوراً پیاس میں مبتلا ہوا، پانی پیتا اور پیاس نہ بجھتی یہاں تک کہ پیاساہی مرگیا ۔حملہ کرتے اور فرماتے:’’ کیا میرے قتل پر جمع ہوئے ہو ؟ہاں ہاں ،خداکی قسم !میرے بعدکسی کو قتل نہ کروگے ،جس کا قتل میرے قتل سے زیادہ خداکی ناخوشی کا سبب ہو ،خداکی قسم !مجھے امید ہے کہ اللہ تعالٰی تمہاری ذلت سے مجھے عزت بخشے اورتم سے وہ بدلہ لے جوتمہارے خواب و خیال میں بھی نہ ہو،خداکی قسم !تم مجھے قتل کرو گے تو اللہ تم میں پھوٹ ڈالے گا اور تمہارے خون بہائے گا اور اس پرراضی نہ ہو گا یہاں تک کہ تمہارے لئے دکھ دینے والا عذاب چند درچند بڑھائے گا۔‘‘ (الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۳۱) جب شمر خبیث نے کام نکلتا نہ دیکھا ،لشکرکو للکارا:’’تمہاری مائیں تم کو پیٹیں کیا انتظار کر رہے ہو حسین کو قتل کرو ۔‘‘اب چارطرف سے ظلمت کے ابراور تاریکی کے بادل فاطمہ(رضی اللہ تعالٰی عنہا) کے چاندپر چھا گئے ۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں شانہ مبارک پر تلوار ماری ،امام تھک گئے ہیں۔۔۔۔زخموں سے چور ہیں۔۔۔۔ ۳۳زخم نیزے کے ۳۴ گھاؤ تلواروں کے لگے ہیں۔۔۔۔تیروں کا شمار نہیں۔۔۔۔ اٹھنا چاہتے ہیں اورگرپڑتے ہیں۔۔۔۔اسی حالت میں سنان بن انس نخعی شقی ناری جہنمی نے نیزہ مارا کہ وہ عرش کاتارا زمین پرٹوٹ کر گرا۔۔۔۔سنان مردودنے خولی بن یزید سے کہا:سرکاٹ لے۔


اس کا ہاتھ کانپا۔ سنان ولد ا   لشیطان بولا:’’تیراہاتھ بیکارہو‘‘ اور خود گھوڑے سے اترکر محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے جگر پارے ،تین دن کے پیاسے کوذبح کیا اور سرمبارک جداکرلیا۔شہادت جو دلہن بنی ہوئی سرخ جوڑا،جنتی خوشبویوں سے بسائے اسی وقت کی منتظر بیٹھی تھی،گھونگھٹ اٹھا کربے تابانہ دوڑی اور اپنے دولھا حسین شہیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کے گلے میں باہیں ڈال کر لپٹ گئی ۔۔۔۔۔


فَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ


وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی اَعْدَائِہٖ وَاَعْدَائِھِمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔


          اس پربھی صبر نہ آیا ،امام کا لباس مبارک اتارکر آپس میں بانٹ لیا۔ عداوت کی آگ اب بھی نہ بجھی ،اہل بیت  کے خیموں کو لوٹا ،تمام مال اسباب اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی صاحبزادیوں کا زیور اتارلیا ،کسی بی بی کے کان میں ایک بالی بھی نہ چھوڑی۔


          اللہ  واحد قہارکی ہزارہزار لعنتیں ان بے دینوں کی شقاوت پر ،زیوردرکنار اہل بیت کے سروں سے ڈوپٹے تک ۔۔۔۔۔۔۔۔،اب بھی مردودوں کے چین نہ پڑا ،ایک شقی ناری جہنمی پکارا:’’کوئی ہے کہ حسین کے جسم کو گھوڑوں سے پامال کردے ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ دس مردودگھوڑے کداتے دوڑے اورفاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی گودکے پالے ،مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے سینے پرکھیلنے والے ،کے تن ِمبارک کو سموں سے روندھا کہ سینہ و پشت ِنازنین کی تمام ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں۔۔۔۔۔


صَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ


وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی اَعْدَائِہٖ وَاَعْدَائِھِمِ الظّٰلِمِیْنَ۔


                                                 (الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۳۲)



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے