سیرت و سوانح مفتی تحسین رضا خان علیہ الرحمہ



سند المحدثین، استاد العلماء ماہر علم و فن ،نبیرہ استاد زمن ،صدر العلماء حضرت علامہ مولانا الشاہ تحسین رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ العزيز


ولادت باسعادت :

صدر العلماء علیہ الرحمہ ۱۴ شعبان المعظم۱۳۴۸ھ/۱۹۳۰ء بریلی شریف میں پیدا ہوئے 


نام ونسب:

آپ علیہ الرحمہ کا نام نامی اسم گرامی تحسین رضا ہے

 آپ خلیفہ و داماد اعلی حضرت علامہ مولانا حکیم حسنین رضا خان علیہ الرحمہ کے منجھلے صاحبزادے اور استاذ زمن و برادر اعلی حضرت کے پوتے اور رئیس المتعلمين عمدة المحققين حضرت علامہ مفتی نقی علی خان قدس سرہ کے پر پوتے ہیں اس طرح تیسری پشت میں جاکر آپ کا سلسلہ نسب امام اہلسنت اعلی حضرت فاضل بریلوی نور اللہ مرقدہ سے جا ملتا ہے 


تعلیم و تربیت:

آپ علیہ الرحمہ نے ابتدا سے دورہ حدیث تک کے تمام مراحل تاجدار اھلسنت مفتی اعظم ہند مفتی مصطفٰی رضا خان بریلوی قدس سرہ کے زیر عاطفت میں رہتے ہوئے طے کئے اس کے بعد خصوصی درس حدیث کے لئے آپ تلمیذ حجة الإسلام سند المحدثین قبلہ محدث اعظم پاکستان مفتی سردار احمد قادری قدس سرہ العزیز کی درسگاہ جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد (سردآباد)کی طرف رخ کیا اور محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ سے خصوصی درس حدیث لیا اور حدیث دانی میں کمال حاصل کرکے سن۱۹۵۷ء میں مدینة المرشد بریلی شریف واپس ہوئے


اساتذہ کرام:

 آپ نے اپنے وقت کے جلیل القدر اور اجلہ علما سے کسبِ فیض فرمایا۔ 

خلیفہ اعلحضرت صدرالشریعہ علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی، مصنفِ بہار شریعت سے تفسیر جلالین شریف پڑھی

سرکارِ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے فتویٰ نویسی سیکھی اور ان سے علمی و روحانی فیض حاصل فرمایا۔ 

مولانا سردار احمد محدث اعظم پاکستان سے علمِ حدیث کی تکمیل فرمائی۔ ان کے علاوہ مولانا غلام جیلانی رضوی اعظمی، 

مولانا قاضی شمس الدین رضوی جعفری،مصنف قانونِ شریعت، 

مولانا غلام یٰسین پورنوی، 

مولانا سردار علی خاں اور

مفتی ِ اعظم پاکستان مفتی وقارالدین صاحب علیہم الرحمۃ والرضوان جیسے اساطینِ امّت اور اصحابِ فضل و کمال کے استفادے نے آپ کو علمی سطح پر خوب خوب نہال کیا۔


تدریسی خدمات:

دورہ حدیث سے فراغت کے فورا بعد سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے آپ کو جامعہ مظہر اسلام مسجد بی بی جی میں درس حدیث کے لئے منتخب فرمایا اور آپ علیہ الرحمہ مسلسل ۱۸ سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور صدرالمدرسین کے منصب جلیلہ پر فائز رہے پھر اسکے بعد ۷ برس تک مرکزی ادارہ جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں طالبان علوم نبویہ کو سیراب کرتے رہے اور یہاں بھی صدرالمدرسین کے منصب پر فائز رہے پھر اس کے بعد ۲۳ سال فقیر کی مادر علمی جامعہ نوریہ رضویہ محلہ باقر گنج بریلی شریف میں درس حدیث میں مصروف رہے اور یہاں بھی صدرالمدرسین کے منصب پر فائز رہے پھر تاج الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی اختر رضاخان الازہری علیہ الرحمہ کے قائم کردہ ادارہ جامعة الرضا میں قبلہ تاج الشریعہ کے پیہم اصرار پر تدریس شروع فرمائی اور یہاں دورہ حدیث اور تخصص فی الفقہ کے طلباء کو مستفیض کرتے رہے اور یہ سلسلہ وصال سے چند سال قبل تک جاری رہا اس طرح صدر العلماء کی تدریسی خدمات ۵۰ سال تک جاری و ساری رہیں


بیعت وارادت: 

حضور تحسین میاں علیہ الرحمہ کے والد گرامی مولانا حسنین رضا خاں علیہ الرحمہ نے آپ کو حضور مفتیِ اعظم سے بیعت کرایا۔ ۲۵؍ صفرالمظفر ۱۳۸۰ھ/۱۹۳۴ء میں عرس رضوی کے پُر بہار موقعے پر اجلۂ اکابر و مشائخ کی موجودگی میں صرف ۱۳؍سال کی عمر میں سرکار مفتیِ اعظم ہند نے آپ کو بیعت فرمایا۔ اسی وقت آپ کو خرقۂ اجازت و خلافت بھی عطا فرمایا۔ اور آپ کے سر پر اپنا عمامہ شریف بھی اپنے دستِ مبارک سے باندھا۔ سیدالعلما حضرت سیّد آل مصطفی مارہروی، مجاہدِ ملت حبیب الرحمن اڑیسوی، برہانِ ملت برہان الحق جبل پوری، اور حافظِ ملت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری، علیہم الرحمۃ والرضوان جیسے برے بڑے مشائخ و علما نے آپ کی خرقہ پوشی فرمائی۔


معاصرین:

نبیرہ اعلی حضرت تاج الشریعہ بدر الطریقہ فخر ازھر علامہ مفتی اختر رضاخان الازہری علیہ الرحمہ

نبیرہ اعلی حضرت قمر ملت علامہ قمر رضا خان بریلوی قدس سرہ 

نبیرہ اعلی حضرت فاتح افریقہ ریحان ملت علامہ ریحان رضا خان عرف رحمانی میاں علیہ الرحمہ 

 نبیرہ استاذ زمن و نبیرہ اعلی حضرت و برادر صدر العلماء ہم شبیہ مفتی اعظم ہند امین شریعت علامہ سبطین رضا خان بریلوی

 قدس سرہ

 نبیرہ استاذ زمن و نبیرہ اعلی حضرت و برادر صدر العلماء تاج الاصفیاء حبیب العلماء علامہ حبیبرضا خان قدس سرہ 

قاضی اہلسنت یادگار اسلاف علامہ مفتی قاضی عبد الرحیم بستوی علیہالرحمہ 

خلیفہ مفتی اعظم ہند صوفی ملت علامہ مولانا صوفی اقبال نوری نور اللہ مرقدہ  


گل سرسبد کا خطاب کس نےاور کس وجہ سے دیا:

حضور صدر العلماء علیہ الرحمہ کے زیر لب مسکراہٹ دائمی تھی گویا لبہائے مبارکہ سے پھول چھڑ رہے ہوں آپ کے اسی وصف خاص کی وجہ سے سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ آپ کو فرماتے تحسین رضا گل سرسبد یعنی پھولوں کی ٹوکری میں خوشنما اور تر وتازہ پھول ہیں۔ بروایت تاج الاصفیاء حبیب العلماء علامہ حبیب رضا خان قدس سرہ العزیز 


تبلیغی خدمات: 

درس و تدریس کی بے پناہ مصروفیات کی بنا پر آپ تصنیف و تالیف پر بالفعل توجہ مرکوز نہ رکھ سکے۔ تقریر سے بھی کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا بس تدریس ہی کے ذریعے مذہب و ملت کی تبلیغ فرماتے رہے۔ اور آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ صدرالعلما نے تقریباً ۵۰؍ سال تک تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی سب سے بڑی تبلیغ عوام کے لیے درسِ قرآن و حدیث ہے۔ جو تدریسی دعوتی مساعی اور اصلاحی تحریکات پر بھاری ہے۔ چند حضرات نے مل کر حضرت سے درسِ حدیث لینے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ درس حدیث نومبر ۱۹۸۲ء میں شروع کیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کے ساتھ ساتھ درس قرآن میں ایک رکوع کا ترجمہ فرماتے پھر ا س کی تفسیر، تشریح اور توضیح فرماتے اور پھر آدھے گھنٹے کے لیے درسِ حدیث ہوتا۔ اس مین مشکوٰۃ شریف سے سامعین کو احادیث سنائی جاتیں او ان کی تشریح کی جاتی۔ کہتے ہیں کہ ۲۵؍ سال تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہا۔ ۱۴؍ سال میں درس قرآن مکمل ہوا۔ پہلے یہ دونوں درس آپ کی بیٹھک میں ہوتے تھے لیکن جلد ہی جگہ تنگ پڑگئی اور قریب کی نورانی مسجد میں درس کا انتظام کیا گیا۔ لیکن اژدحام کی وجہ سے وہ مسجد بھی تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگی۔ لہٰذا دوسری مسجد میں درس منتقل کرنا نا گزیر ہوگیا۔ قریب کی ایک چھ مینارہ مسجد کا انتخاب کیا گیا اور تاوصال آپ نے یہیں درس دیا۔ اور اب اس درس کے سلسلے کو استاد محترم فقیہ العصر محقق بے بدل استاذ العلماء مفتی قاضی شہید عالم رضوی مد ظلہ العالی جاری کئے ہوئے ہیں 


وصال:

۱۸ رجب المرجب۱۴۲۸ھ مطابق۳ اگست۲۰۰۷ ناگپور انڈیس کے قریب ایک حادثہ میں آپ کا وصال ہوا انا للہ و انا الیہ راجعون  


مزار فائض الانوار 

آپ کا مزار پاک شہر رضا بریلی شریف میں محلہ کانکر ٹولہ میں جلوہ گاہ خاص و عام ہے  


حوالہ۔ (تجلیات رضا کا صدر العلماء محدث بریلوی نمبر، مولانا صادق رضا مصباحی صاحب کے مضمون سے مقتبس) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے