شیخ الحدیث علامہ خلیل مدنی علیہ الرحمہ : اوصاف و کمال(5ویں سالانہ عرسِ علامہ خلیل مدنی پر خصوصی تحریر)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭*
✍️ تحریر :یکے از تلامذہ
نازش مدنی مرادآبادی
استاد :جامعۃ المدینہ ،ہبلی کرناٹک
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فقیر کے اساتذہ میں ایک عظیم اور روشن نام یادگار اسلاف، فنا فی الشیخ، سید المدرسین، جامع معقولات ومنقولات ، خلیل العلماء، استاذ الاساتذہ، شیخ الحدیث و التفسیر *حضرت علامہ مولانا خلیل عطاری مدنی لاہوری قدس سرہ(سابق شیخ الحدیث: جامعۃ المدینہ نیپال گنج نیپال)* کا ہے۔ آپ کا تعلق قریبی ملک پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ آپ ایک کثیر التلامذہ ماہر استاذ تھے ، ہزاروں ہزار علما، فضلا اور مفتیان کرام آپ سے پڑھ کر ناصرف پاکستان بلکہ ہند ونیپال اور بنگلہ دیش میں دین متین کی خدمات انجام دینے میں سرگرم عمل ہیں۔آپ علیہ الرحمہ متعدد اوصاف وکمالات کے حامل تھے اگر ان تر تمام فضائل و محاسن کا احاطہ کیا جائے تو باضابطہ مستقل ایک کتاب معرض وجود میں آ سکتی ہے۔ مگر ذیل میں آپ علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کے ان چند مخصوص گوشوں پر کلام کیا جاتا ہے جو انتہائی روشن اور تابناک ہیں۔
تدریسی خوبیاں :
آپ علیہ الرحمہ کا زمانہ تدریس 20 سالوں سے زائد عرصے کو محیط ہے فراغت کے بعد ابتداً آپ نے لاہور شہر کے مختلف جامعات المدینہ میں تدریس ونظامت کے فرائض انجام دیئے۔ بعدہ مدنی مرکز کے حکم پر آپ نیپال کے شہر نیپال گنج تشریف لے آئے،4 سے 5 سال تک جامعۃ المدینہ نیپال میں شیخ الحدیث کے منصبِ جلیلہ پر فائز رہے۔اگر یوں کہا جائے کہ جامعۃ المدینہ نیپال کو اوج ثریا پر پہنچانے میں قبلہ استاد گرامی کا اہم کردار ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔قدیم فارغین بتاتے ہیں کہ جس وقت آپ کی جامعۃ المدینہ نیپال گنج آمد ہوئی تو اس وقت نہ کوئی معقول رہائش کا اہتمام تھا اور نہ ہی خاطر خواہ کھانے کا نظم وضبط مگر قربان جاؤں سیدی کے اخلاص اور مجاہدانہ کردار پر کہ پھر بھی کسی قسم کی شکوہ و شکایت کے بغیر اس قدر خستہ حالات میں طلبہ کی شخصیت کو نکھارنے میں آپ کوشاں رہے۔
علامہ خلیل مدنی علیہ الرحمہ کا انداز تدریس انتہائی سلیس اور عام فہم ہوا کرتا تھا کہ کمزور سے کمزور طالب علم بھی بات کو بخوبی سمجھ جاتا ۔ آپ کی کلاس میں کوئی طالب علم بھی بوریت محسوس نہیں کرتا۔ سبق پڑھانے سے پہلے طلبہ سے عبارت خوانی کرانا آپ کا معمول تھا (عبارت خوانی میں اگر کوئی طالب علم غلطی کرتا تو پھر اچھی خیرخواہی بھی ہوجاتی)، صرفی نحوی تحقیق لازمی کراتے اور بخاری شریف پڑھانے سے پہلے روزانہ آپ طلبہ کرام سے قصیدہ بردہ شریف کے اشعار پڑھواتے اور خود بھی پڑھتے پھر درس کا آغاز کرتے۔ بندہ ناچیز نے دار الحدیث کے سامنے سے گزرتے ہوئے خود بارہا دیکھا کہ قبلہ استاد گرامی درس بخاری سے قبل انکھیں بند کئے قصیدہ بردہ سماعت فرما رہے ہوتے۔
نماز سے آپ کی محبت
نماز جوکہ دین اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ اور ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض ہے۔ اس کی ادائیگی پر جہاں نویدیں مروی ہے وہیں اس کے قصداً ترک پر وعیدیں بھی آئی ہیں۔ سیدی استاد گرامی علیہ الرحمۃ والرضوان کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نماز کے انتہائی پابند تھے نمازباجماعت کا چاہے سفر ہو یا حضر ہر حال میں بہت اہتمام فرماتے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔
جامعۃ المدینہ نیپال میں فقیر نے بارہا دیکھا کہ جیسے ہی فیضان مدینہ میں اذان شروع ہوتی آپ فوراً اپنے کمرے سے باہر نکلتے اور طلبہ کو بھی نماز کی دعوت دیتے ہوئے فیضان مدینہ کا رخ فرماتے۔
لاہور کے ایک شاگرد نے بندہ ناچیز کو یہ واقعہ بتایا کہ : جس زمانہ میں آپ علیہ الرحمہ جامعۃ المدینہ کاہنہ نو لاہور میں نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے اس وقت جماعت ترک کرنے والے طلبہ کے لئے آپ علیہ الرحمہ نے ایک سزا مقرر کی کہ جو جماعت چھوڑتا آپ علیہ الرحمہ اس کو نماز کے بعد پچھلی صف میں دونوں ہاتھ اونچے کروا کے کھڑا کردیتے۔ جس سے سب طلبہ کے سامنے اس کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا اور آئندہ جماعت ترک کرنے سے وہ احتراز کرتا، اچانک ایک دن ایسا ہواکہ استاد گرامی کی خود کسی سبب جماعت سے ایک رکعت چھوٹ گئی تو آپ علیہ الرحمہ نماز کے بعد خود اوپر ہاتھوں کو بلند کرکے کھڑے ہو گئے۔ استاد صاحب سمیت تمام طلبہ روتے رہےطلبہ نے بڑی منت سماجت کی مگر استاد صاحب کھڑے رہے اور فرمانے لگے :*ترغیب کے لیے بیٹا ! سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے اس لیے ترک جماعت پر جو سزا آپ کی ہے وہی میری بھی ہے۔*
عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
عشق رسول تو آپ علیہ الرحمہ کی رگ و پے میں رچا بسا تھا اور کیوں نا ہو کہ یہی تو انسان کی اصل متاعِ حیات ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ع۔
جان ہے عشق مصطفٰی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
آپ علیہ الرحمہ کے عشق رسول کے حوالے سے چند نظائر وامثال پیش خدمت ہیں :
جیسا اوپر گزرا کہ آپ علیہ الرحمہ روزانہ بلاناغہ درس بخاری سے قبل قصیدہ بردہ شریف کے چند اشعار لازمی سنتے تھے پھر اس کے بعد میں درس کا آغاز کرتے یہ آپ کے عشق رسول کا منہ بولتا ثبوت ہے :
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ربیع النور شریف کا مبارک مہینہ رواں دواں تھا روزانہ بعد نماز مغرب فیضان مدینہ سے جامعۃ المدینہ کی عمارت میں تمام طلبہ مرحبا یا مصطفٰی کے نعروں کے ساتھ جلوس کی شکل میں آتے ایک بار اچانک ایسا ہوا کہ استاد گرامی حضرت علامہ خلیل مدنی علیہ الرحمہ بھی جلوس میں شریک ہو گئے جیسے ہی فیضان مدینہ سے جلوس جامعۃ المدینہ کے صحن میں داخل ہوا اور نعرے بلند ہوئے۔ تو استاد گرامی پر وجد طاری ہو گیا، سنبھالے سے نہیں سنبھل رہے کافی دیر کے بعد آپ علیہ الرحمہ پر سکون ہوئے۔ یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد اس قدر لو لگی اور اس طرح بیخودی طاری ہوئی کہ آپ کو اپنی ہی خبر نہیں رہی۔ اس واقعہ سے سیدی اعلیٰ حضرت کا وہ شعر یاد آگیا جس میں فرماتے ہیں :
ایسا گما دے انکی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈا کریں پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
خوف خدا
خشیت الٰہی علماء ربانیین کا حصہ ہے جیسا کہ خود اللہ جل شانہ فرماتا ہے
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [فاطر:28] یعنی اللہ کے بندوں میں علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں
خشیت الہی کے حوالہ سے جب ہم استاد گرامی کی سیرت مبارکہ کو ملاحظہ کرتے ہیں تو آپ علیہ الرحمہ اس وصف میں بھی کامل واکمل نظر آتے ہیں جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
میرے ہم سبق حضرت مولانا ظفر مدنی (ناظم جامعۃ المدینہ، گورکھپور) کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں رات کو تہجد کے لیے اٹھا وضو کرکے جب فیضان مدینہ میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کونے سے رونے کی آواز آ رہی ہے اور کوئی بارگاہِ ایزدی میں لو لگائے گڑگڑا رہا ہے جب فجر کا وقت ہوا موذن نے لائٹ آن کی تو دیکھا کہ وہ گریہ وزاری کرنے والی شخصیت کوئی اور نہیں قبلہ استاد محترم علامہ خلیل مدنی علیہ الرحمۃ والرضوان ہیں اور آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تربتر ہے گویا محسوس ہو رہا کہ ابھی آپ نے تازہ تازہ وضو کیا ہوا ہو ۔خوف خدا کی ایک نظیر اور ملاحظہ فرمائیں :
مولانا عمران مدنی (پٹنہ، بہار) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ استاد گرامی درس گاہ میں پڑھانے کے بعد فرمانے لگے کہ بیٹا !ہم آپ کو پڑھاتے ہیں مگر ہمیں اس پر دنیا میں کسی بدلہ کی امید نہیں البتہ اتنی امید ضرور ہے کہ بروز قیامت آپ تمام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں میری شفاعت ضرور کروا دینا یہ فرماکر آپ علیہ الرحمہ زارو قطار رونے لگے پھر اس کے بعد آپ درجہ کے باہر تشریف لے گیے۔
اسی طرح جب بھی آپ نیپال سے اپنے وطن لاہور واپس ہوتے تو ہر درجہ میں جا جاکر تمام طلبہ سے معافی مانگتے اور اگر خاص کسی طالب علم کو سزا دی ہوئی ہوتی تو اس سے خصوصی طور پر معافی مانگتے۔یعنی آپ علیہ الرحمہ حقوق العباد کی تلافی کی سلسلہ میں نہایت ہی حساس تھے
عاجزی و سادگی
عجز و انکساری شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور علم وہی نفع بخش ہے جو بندہ کے اندر عجز و انکساری پیدا کرے۔ آپ علیہ الرحمہ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ باہر سے آنے والے لوگ بسا اوقات خود آپ ہی سے پوچھ لیا کرتے تھے کہ شیخ الحدیث علامہ خلیل مدنی کون ہیں ان سے ملاقات کرنی؟ پھر بعد میں پتا چلتا تھا کہ جو سائل کا مخاطب ہے وہی علامہ خلیل مدنی ہیں آپ کا قیام چونکہ نیپال میں فیملی کے ساتھ تھا اس لیے بارہا دیکھا گیا آپ گھر کا سامان خود بازار جاکر خریدتے حالانکہ آپ چاہتے تو آپ کے تلامذہ سامان گھر پہنچا سکتے تھے مگر آپ ہر گز یہ پسند نہیں کرتے اور اپنا کام خود ہی کرتے۔ کئی مرتبہ تو یہ بھی دیکھا گیا کہ جب طلبہ تعلیمی حلقوں میں تکرار کر رہے ہوتے تو آپ علیہ الرحمہ طلبہ کے پاس نیچے ہی زمین پر ہی بیٹھ جایا کرتے اور طلبہ کا تعلیمی جائزہ لیتے۔
صاحب قرطاس وقلم حضرت مولانا شفیق مدنی حضرت کی انکساری بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
استادِ محترم علامہ خلیل مدنی علیہ رحمۃ اللہ القوی عاجزی و انکساری فرمانے والے تھے۔مین نے انہیں دیکھا کہ جب کلاس کے علاوہ ہمارے روم میں تشریف لاتے تو زمین پر ہی تشریف فرما ہو جاتے اور ہماری تربیت فرماتے۔
منکسر المزاجی کی مثال دیتے ہوئے حضرت کے تلمیذ رشید مولان عدنان زار مدنی لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ جب استاد گرامی جامعۃ المدینہ کاہنہ نو لاہور میں ناظم جامعہ تھےکسی طالب علم کے سرپرست کی کال آئی اس نے پوچھا آپ کون ہیں
استاد محترم نے انکساری کرتے ہوئے فرمایا خادم جامعہ خلیل بات کر رہا ہوں
وہ سرپرست کہنے لگا میں نے خادم سے بات نہیں کرنی ناظم صاحب سے کرنی ہےمسکرا کر فرمانے لگے جی فرمائیں میں سن رہا ہوں
اسی طرح بارہا دیکھا گیا کہ وضو کے لیے طلبہ کے وضو خانہ پر ہی انتظار میں کھڑے ہو جاتے یعنی آپ کی طبیعت میں یہ چیز نہیں تھی کہ کوئی مجھے پروٹوکول دے بلکہ آپ کے کسی قول و فعل سے کسی نے یہ کوئی کروفر محسوس تک نہ کیا ہوگا۔
طلبہ کرام پر شفقتیں
استاد در اصل ایک روحانی باپ ہوتا ہے اس لیے کہ باپ تو اولاد کی دنیا کوبہتر کرتا ہے مگر استاد وہ عظیم ہستی ہے جو طلبہ کی آخرت کو سنبھالتا اور حقیقی معنوں میں اس کو معاشرہ کا ایک بہترین انسان بناتا ہے۔
جیسا کہ کسی دانا نے کہا
علم وہنر سے پاتی ہے انسانیت عروج *
انسان زندہ لاش ہے تعلیم کے بغیر
آپ علیہ الرحمہ کبھی کسی طالب علم کا دل نہیں ٹوڑتے بلکہ جو طلبہ امتحان میں فیل ہو جاتے انہیں دلاسا دلاتے اور مزید ان پر خصوصی توجہ فرماتے ایسے موقعہ پر آپ یہ جملہ ارشاد فرماتے *ناکام ہوئے تو کیا ہوا ناکامی ہی تو کامیابی کا زینہ ہے اگر بندہ ناکام نہ ہوتو کامیاب کیسے ہوگا۔
اب آئیے سیدی استاد گرامی کی ذرہ نوایوں کو ملاحظہ کرتے
مولانا شاہد خاکی مدنی مکرانوی بیان کرتے ہیں:
ایک مرتبہ استاد گرامی کو وطن واپس جانا تھا ویزا ختم ہو چکا تھا اور آئندہ سال بھی واپس آنے کی امید نہیں تھی۔ جانے سے دو دن قبل استاد گرامی ہمارے درجہ میں تشریف لائے گفتگو کا سلسلہ جاری تھا دریں اثناء ایک طالب علم نے پوچھ لیا کہ حضور آپ جا رہے ہیں ہماری تعلیم کا کیا ہوگا تو استاد صاحب نے فرمایا بیٹا میں اس پہ کہاں خوش ہوں؟ کہ میں گھر جا رہا ہوں مجھے تو خود اپنے بچوں( یعنی آپ لوگوں) کی فکر ہے یہ فرما کر آپ رونے لگے اور روتے روتے اٹھ کر درجہ سے باہر تشریف لے گئے۔
یعنی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ علیہ الرحمہ طلبہ کی تعلیم کے کس قدر فکر مند رہا کرتے تھے ورنہ ہوتا یہ کوئی شخص اگر پردیس میں ہو پھر اس کو اچانک گھر جانے کی خبر ملے تو وہ کتنا خوش ہوتا ہے مگر قربان جاؤں سیدی پر کہ آپ گھر جانے پر خوش نہیں ہوئے بلکہ غمزدہ تھے۔
مولانا عمران مدنی (پٹنہ، بہار ) بیان کرتے ہیں: ایک بار میں نے ہفتہ وار اجتماع میں استاد کے ادب کے عنوان پر بیان کیا اس کے بعد اگلے دن میں راستہ سے گزر رہا تھا تو استاد صاحب نے مجھے پاس بلایا اور فرمانے لگے ماشاء اللہ عمران بیٹا رات بہت اچھا بیان کیا تھپکی دی اور جیب سے پانچ سو روپے عطا فرمائے
اسی طرح کا ایک واقعہ بندہ ناچیز کے ساتھ کا بھی ہے:
ہوا کچھ یوں کہ جس سال بندہ ناچیز جامعۃ المدینہ احمدآباد میں درجہ ثالثہ کا طالب علم تھا۔ اسی سال نیپال میں سالانہ اجتماع میں فقیر شریک ہوا تو استاد محترم سے ملاقات ہوئی کافی گفتگو رہی واپسی پر استاد صاحب سے مصافحہ کیا تو رونے لگا تو استاد صاحب نے تھپکی دی اور فرمانے لگے *بیٹا پڑھو محنت سے پڑھنا* پھر جیب سے1000 روپے نیپالی نکال کر مجھے عنایت فرمائے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
اسی طرح کی ایک نظیر بیان کرتے ہوئے مولاناشفیق خان عطاری مدنی رقمطراز ہیں:
استادِ محترم علامہ خلیل مدنی علیہ رحمۃ اللہ القوی طلبہ پر بڑے مہربان اور شفقت فرمانے والے تھے۔ایک بار میری طبیعت خراب ہو گئی تو مجھے 100 روپے نیپالی عطا فرمائے۔اور فرمایا کہ پھل وغیرہ کھا لینا۔میں نے روپے تو وصول کر لئے۔پھر خیال آیا کہ اگر اس رقم سے پھل نہ کھایا تو حکم کی تعمیل نہیں ہو گی لہذا میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے کلی اختیار دے دیجئے۔پس آپ مسکراتے ہوئے اجازت مرحمت فرما دی۔
یہ تو چند واقعات بطور مثال تھے ورنہ اس طرح کے کئی واقعات ہونگے جو دیگر طلبہ کے ساتھ بھی رونما ہوئے ہوں گے۔
مرشد گرامی اور شہر مرشد کراچی سے الفت ومحبت کا انوکھا انداز
آپ علیہ الرحمہ اپنے مرشد گرامی سیدی و مرشدی امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ سے بے انتہاء محبت فرماتے اور ایک مرید کامل ہوتا ہی وہ ہے جو اپنے مرشد کی ذات میں فنا ہو اس محبت کی ایک مثال دیتے ہوئے مولانا غلام فاروق مدنی گویا ہیں :
جس وقت میں جامعۃ المدینہ کاہنہ نو لاہور میں درجہ اولی کا طالب علم تھا اس وقت کی بات ہے کہ استاد گرامی جب درجہ میں تشریف لاتے تو ہم سب کو کھڑا کرکے فرماتے *کہ دیار مرشد کراچی کی طرف رخ کرکے منقبت پڑھو* یعنی آپ علیہ الرحمہ کو اپنے مرشد کے دیار سے اس حد تک لگاو تھا کہ منقبت بھی در مرشد کی طرف رخ کرکے سنتے اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ مدنی مذاکرہ پر مداومت فرماتے اور دیدار مرشد سے مستفید و مستفیض ہوتے
یہ آپ علیہ الرحمہ کی حیات کے چند گوشے تھے اگر موقعہ ملا تو بعد میں بھی دیگر عناوین پر گفتگو کروں گا دعا ہے اللہ جل شانہ سیدی استاد گرامی کی قبر انور پر رحمت و نور کی بارشیں نازل فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین۔
ترے جمال کی زیبائیاں ادا نہ ہوئیں
ہزار کام لیا میں نے خوش بیانی سے
٭٭٭٭٭٭٭٭
0 تبصرے