سیرت حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

سیرت حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا



 تَعَارُفِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا


حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قُرَیش کی ایک باہمت، بلند حوصلہ اور زِیْرَک (عَقْل مند) خاتون تھیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت بہترین اوصاف سے نوازا تھا جن کی بدولت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا جاہلیت کے دَور شر وفساد میں ہی طاہِرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھیں۔


اوّلین اِزْدِواجی زندگی


سرکارِ ابدِ قرار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ نِکاح میں منسلک ہونے سے پہلے دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی شادی ہو چکی تھی پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوئی اِس کے فوت ہو جانے کے بعد عتیق بن عابِد مخزومی سے، جب یہ بھی وفات پا گیا تو کئی رؤسائے قریش نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی


 


 عَنۡہَا کو شادی کے لئے پیغام دیا لیکن آپ نے انکار فرما دیا اور کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا پھر خود سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شادی کی درخواست کی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حبالۂ عقد میں آئیں۔


وِلادت اور نام ونسب


آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت باسعادت عامُ الْفِیْل سے 15 سال پہلے ہے۔ نام خدیجہ، والِد کا نام خُوَیْلِد اور والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔ والِد کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے: ” خُوَیْلِد بن اَسَد بن عَبْدُ الْعُزّٰی بن قُصَیّ بن کِلَاب بن مُرَّة بن کَعْب بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِرّ “ اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: ” فاطِمہ بنتِ زَائِدة بن اَصَمّ بن ھَرِم بن رواحہ بن حَجَر بن عَبْد بن مَعِیْص بن عامِر بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِرّ “


رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصال


حضرتِ قُصَیّ بِنْ کِلَاب میں جا کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ اس حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی نسبت سب سے کم واسِطوں سے آپ کا نسب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے ملتا ہے۔


کنیت والقاب


آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کُنْیَت اُمُّ الْقَاسِم اور اُمِّ ھِند ہے۔ لقب بہت سے ہیں جن میں سب سے مشہور الکبریٰ ہے۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ کو طاھِرہ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ 


مُتَفَرِّق فضائل و مَنَاقِب


اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فضائل و مناقِب بےشمار ہیں۔ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وِصال ہو گیا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کثر ت سے آپ کا ذکر فرماتے اور اپنی بلند وبالا شان کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے۔ روایت میں ہے کہ بارہا جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔ 


یادِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا


ایک بار حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن حضرتِ ہالہ بنتِ خُوَیْلِد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سرکارِ رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بارگاہِ اقدس میں حاضِر ہونے کی اجازت طلب کی، ان کی آواز حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا اجازت طلب کرنا یاد آ گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جُھرجُھری لی ۔ 


چار۴ افضل جنتی خواتین


اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ان چار۴ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنتی عورتوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا سے رِوایَت ہے فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زمین پر چار۴ خُطُوط (Line's) کھینچ کر فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ صحابۂ کِرَام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: ” اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔ “ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنتی عورتوں میں سب سے زِیادہ فضیلت والی یہ


 عورتیں ہیں: (۱) ...خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد


                  (۲) ...فاطِمہ بنتِ مُحَمَّد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)


                  (۳) ...فِرعون کی بیوی آسیہ بنتِ مُزَاحِم ([6])


                  (۴) ...اور مَرْیَم بنتِِ عِمْران۔ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ) ([7])


دنیا میں جنتی پھل سے لطف اندوز


آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دنیا میں رہتے ہوئے جنتی پھل سے لطف اندوز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو جنّتی انگور کِھلائے۔ ([8])  


صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


سفرِ آخرت


اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتہ اِزدِواج میں منسلک ہونے کے بعد تاحیات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُعاملات میں آپ کی ممد ومُعَاوِن رہیں اور ہر قسم کی پریشانی میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی غم گساری کرتی رہیں بالآخر نبوت کے دسویں سال، دس رَمَضَانُ الْمُبَارَک کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے داعِیِ اَجَل کو لبیک کہا اور اپنے آخِرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔ بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی۔ ([9])  


نمازِ جنازہ


جس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا وِصال ہوا اس وقت تک نمازِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا اس لئے آپ پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ” فِیْ الْوَاقِع (دَرْحقیقت) کُتُبِ سِیَر (سیرت کی کتابوں) میں عُلَماء نے یہی لکھا ہے کہ اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے جنازۂ مُبَارَکہ کی نماز نہ ہوئی کہ اس وقت یہ نماز ہوئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کا حکم ہوا ہے۔ “ 


تدفین


آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں واقع حَجُوْن کے مقام پر دفن کیا گیا۔ حُضُور رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود بہ نفس نفیس آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی قبر میں اترے اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔


سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا كی اَوْلاد


اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا وہ خوش نصیب اور بلند رتبہ خاتون ہیں جنہوں نے کم وبیش 25 برس تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت ِ اقدس میں رہنے کی سعادت حاصِل کی اور سِوائے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے کہ وہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے پیدا ہوئے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اَوْلادِ اَطہار اِنہیں سے ہوئی آپ مؤمنین کی سب سے پہلی ماں اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون ہیں۔ شہنشاہِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاح میں آنے سے پہلے دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح ہو چکا تھا، پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوا۔ ابوہالہ سے دو۲ فرزند ہالہ اور ہِنْد پیدا ہوئے اور دونوں ایمان لا كر شَرَفِ صحابيت سے مُشَرَّف ہوئے۔ ابوہالہ کی موت کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عتیق بن عابِد مخزومی سے نِکاح فرمایا، اس سے ایک لڑکی ہِنْدہ پیدا ہوئی، یہ بھی ایمان لا کر شرفِ صحابیت سے مُشَرَّف ہوئیں۔


رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَوْلادِ پاک


سرکارِ نامدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تین۳ شہزادے: (۱) ...حضرت سیِّدنا قاسِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ


                  (۲) ...حضرت سیِّدنا عَبْدُ اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ


                  (۳) ...حضرت سَیِّدنا ابراھیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ


اور چار۴ شہزادیاں: (۱) ...حضرت سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا


                  (۲) ...حضرت سیِّدَتُنا رُقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا


                  (۳) ...حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا


                  (۴) ...حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا تھیں۔


اور سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سب اولاد حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے ہوئی۔ شہزادگان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا عہدِ طُفُولیت میں ہی انتقال فرما گئے جبکہ چاروں شہزادیاں حیات رہیں اور بڑی ہو کر اپنے اپنے گھر والیاں ہوئیں۔ سِوائے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے تینوں شہزادیاں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عہدِ مُبَارَک میں ہی انتقال فرما گئیں، حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے پردۂ ظاہِری فرمانے کے چھ۶ ماہ بعد انتقال فرمایا۔ اللہ رَبُّ الْعِزّت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


(حوالہ۔ فیضانِ امہات المؤمنین صفحہ 31 تا 39) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے