تَعَارُفِ سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَانام ونسب
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کانام عائشہ ہے، والِدِ محترم حضرتِ سيِّدُنا ابوبكر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ہیں اور والِدہ محترمہ کا نام زینب تھا لیکن یہ اپنی کنیت اُمِّ رُوْمَان سے زیادہ مشہور ہیں۔ والِدِ محترم کی طرف سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب اس طرح ہے: ” ابوبَکْر بن عثمان بن عامِر بن عَمْرو بن کَعْب بن سَعْد بن تَیْم بن مُرَّہ بن کَعْب بن لُؤَیّ “ اور والِدہ محترمہ کی طرف سے یہ ہے: ” اُمِّ رُوْمان بنتِ عامِر بن عُوَیْمِر بن عبدِ شَمْس بن عَتَّاب بن اُذَیْنَه بن سُبَیْع بن دُھْمَان بن حارِث بن غَنْم بن مالِک بن کِنَانَه “
کنیت
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کنیت اُمِّ عَبْدُ اللہ ہے، یہ کنیت اَوْلاد کی نسبت سے نہیں بلکہ بَھانجے حضرتِ عَبْدُ اللہ بن زُبَیْر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی نسبت سے ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن اسماعیل بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی نقل فرماتے ہیں، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ ایک بار میں نے رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ بےکس پناہ میں حاضِر ہو کر عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی دیگر بیبیوں کو کنیت سے نوازا ہے، مجھے بھی عطا فرمائیے تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بھانجے عَبْدُ اللہ کی نسبت سے کنیت رکھ لو۔
القاب
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے القاب بےشمار ہیں جن میں سے ایک صِدِّیقہ بھی ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی صَدَاقت کی گواہی قرآنِ کریم نے دی ہے اور ایک لقب حُمَیْرا ہے، سیِّدُ الْاَنبیاء، محبوبِ کِبْرِیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بہت سے مقامات پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اسی لقب سے یاد فرمایا ہے۔
رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصَال
حضرتِ مُرَّہ میں جا کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ حضرتِ مُرَّہ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتویں جَدِّ محترم ہیں۔
مروی روایات کی تعداد
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث مروی ہیں جن میں سے 174 مُتَّفَقٌ عَلَیْه یعنی بُخاری ومسلم دونوں میں، 54 احادیث صرف بُخاری شریف میں اور 68 احادیث صرف مسلم شریف میں ہیں۔
حضرتِ عُرْوَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے رِوایَت ہے، فرماتے ہیں کہ مرد وعورت میں سِوائے حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے کسی نے بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے برابر احادیث رِوایَت نہیں کیں۔
خاندانی پسِ منظر
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا خاندان عرب کے بہت معزز قبیلے بنوتمیم سے تَعَلُّق رکھتا تھا جس کے پاس زمانۂ جاہلیت میں خون بہا اور دِیتیں جمع کرنے کا عہدہ تھا۔ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قبیلہ بنوتمیم کے اس اشرف واکرم خاندان کی چشم وچراغ تھیں جو اسلام کی ابتدا میں ہی اس کے نور سے منور ہو گیا تھا۔ خاندانی اعتبار سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت شرف وکمال حاصل ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے خاندان کے بہت سے افراد ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو کر رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَجِلَّہ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی فَہْرِسْت میں شامِل ہوئے جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے، چنانچہ
٭والِدِ گرامی سیِّدُنا صِدِّیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قریش کے ایک تجارت پیشہ نِہَایَت مُعَزّز شخص تھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا شمار زمانۂ جاہلیت میں رؤسائے قُرَیْش میں ہوتا تھا اور دیگر سردار آپ سے مختلف اُمُور میں مشورے کیا کرتے تھے۔ حضرت سیِّدُنا معروف عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَدُوْد سے رِوَایَت ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا شمار قریش کے ان دس مایہ ناز لوگوں میں ہوتا ہے جن کی شرافت زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے پاس لوگ فیصلہ کروانے کے لئے اپنے مُقَدَّمات لایا کرتے تھے کیونکہ اس وقت کوئی انصاف پسند بادشاہ تو تھا نہیں جس کے پاس وہ اپنے تمام معاملات کو پیش کرتے، اس لیے ہر قبیلہ میں اس کے رئیس اور شریف شخص کو اس کی ولایت حاصل ہوتی تھی لہٰذا لوگ اپنے فیصلے کروانے کے لیے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ہی کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
٭والِدہ عالِیَہ سیِّدَتُنا اُمِّ رُوْمَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا صِدْق وصفا ، زُہْد ووَفا، جُود وسخا اور فوزو فلاح کی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ نہایت نیک سیرت خاتون تھیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اُن خوش نصیب عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اَوَائِلِ اسلام میں ہی سیِّدِعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ اسلام پر لبیک کہتے ہوئے سرتسلیم خم کیا تھا اور ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو کر حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دیدار کر کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا شرف پایا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ہجرت کے چھٹے سال ذُوْالحجہ کے مہینے میں انتقال فرمایا۔ تدفین کے وقت حُضُور رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود ان کی قبر میں اترے اور دُعائے مغفرت سے نوازا۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو قبر میں اُتارا گیا تو سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَی امْرَاَۃٍ مِّنَ الْحُوْرِ الْعَیْنِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی اُمِّ رُوْمَان جو حورِ عین میں سے کسی کو دیکھنے کا خواہش مند ہو تو وہ اُمِّ رُوْمَان کو دیکھ لے۔“
٭بھائی جان سیِّدُنا عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ
یہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے سگے بھائی ہیں، بہت ہی بَہَادُر اور اچھے تیر انداز تھے، جنگِ بدر و اُحُد میں کُفَّار کے ساتھ تھے پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان پر اپنا خُصُوصی فضل وکرم فرمایا اوریہ مُشَرَّف بہ اسلام ہو گئے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی وفات 53 ہجری میں مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا سے تقریباً 10 میل پر واقِع ایک پہاڑ کے قریب ہوئی اور پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو مکہ شریف میں لا کر سپردِ خاک کیا گیا۔
سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاکیزہ حیات کے چند نمایاں پَہْلو
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ایسے بہت سے فضائل سے نوازاہے جو بِلامبالغہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اَوْجِ ثُرَیّا (ثریا کی بلندی) پر پہنچانے کے لئے کافی ہی مثلاً
٭ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، رسولِ پاک، صاحِبِ لَوْلَاک، سَیَّاحِ اَفْلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے محبوب زَوْجہ ہیں۔
٭ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاک دامنی کی گواہی خود ربِّ کریم عَزَّ وَجَلَّ نے دی اور ” اس براءَت میں اس نے اٹھارہ آیتیں نازل فرمائی۔ “
٭ رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے سِوا اور کسی کنواری عورت سے نِکاح نہیں فرمایا۔
٭ رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حَیَات شریف کے آخری لمحات میں فِرِشتوں اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے سِوا حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس اور کوئی نہ تھا۔
٭ شہنشاہِ ابرار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے حجرۂ مُبَارَکہ میں ہی دنیا سے ظاہِری پردہ فرمایا۔
٭ یہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رَوْضَہ شریف بنا جو عرشِ عُلیٰ سے بھی افضل ہے اور
٭ اس فضیلتِ بے پایاں کی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا حجرۂ مُبَارَکہ قیامت تک فِرِشتوں کے جھرمٹ میں رہے گا۔
بطورِ نمونہ یہ چند ایک مثالیں پیش کی گئی ہیں ورنہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فضائل تو حد وشمار سے بھی باہر ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے یہی فضائل ہیں جو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دیگر تمام ازواجِ طَیِّبات وطاہِرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ میں نمایاں کر دیتے ہیں اور ایک منفرد وبلند مقام پر فائز کر دیتے ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی آپ پر رحمت ہو اور آپ کے صدقے ہماری بےحِساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سفرِ آخِرت
دنیائے اسلام کو اپنے عِلْم وعِرفان کے انوار سے جگمگاتے ہوئے باختلافِ اقوال 17رمضان المبارک منگل کی رات 58ھ کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اس فانی دنیا سے کوچ فرمایا، عظیم مُحَدِّث، جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور حسبِ وصیت رات کے وَقْت جَنَّۃُ الْبَقِیْع میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سپردِ خاک کیا گیا، بوقتِ وفات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عمر شریف 67سال تھی۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(فیضانِ امہات المؤمنین صفحہ 84 تا 90)
0 تبصرے