فضائل امام حسن و حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما

 فضائل امام حسن و حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد للّٰہ رب العالمین و الصلٰوۃ و السلام علی سیدنا و مولانا محمد و الہ و اصحابہ اجمعین ۔

{ حبیب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں فضل شہادت کی حاضری }

              ہمارے حضورپرنور سرورِعالَم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کواللہ تعالٰی نے تمام کمالات

وصفات کامجمعِ خلق فرمایا۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے سے اوصافِ حمیدہ وخصائلِ پسندیدہ کسی مَلک ، کسی بشر،کسی رسول،کسی پیغمبرمیں ممکن نہیں۔ بنظرِظاہر،صرف فضلِ شہادت ،اس بارگاہِ عرش اشتباہ کی حاضری سے محروم رہا ۔اس کی نسبت علمائے کرام کا خیال ہے اور کتنانفیس خیال ہے کہ جنگِ اُحُدشریف میں اس روحِ مصور، جانِ مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کادندانِ مبارک شہید ہونا سب شہیدوں کی شہادت سے افضل ہے۔ اورجس وقت حضور پرنور  صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کاتعلقِ خاطرشہزادوں کے ساتھ خیال میں آتا ہے تو اس امر کے اظہارمیں کچھ بھی تامل نہیں رہتا کہ ان حضرات کی شہادت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمہی کی شہادت ہے اورانہوں نے نیابۃً اس شرف کوسرسبزی و سرخروئی عطا فرمائی۔

{فضائل امام حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما}

          ایک بارحضرتِ امامِ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ  حاضرِخدمتِ اقدس ہوکر حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمکے شانۂ مبارک پرسوارہوگئے،ایک صاحب نے عرض کی :صاحبزاد ے آپکی سواری کیسی اچھی سواری ہے۔حضورِ اقدسصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:’’اور سوار کیسا اچھا سوار ہے۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمدالحسن...الخ،الحدیث ۳۸۰۹، ج۵،ص۴۳۲)

          حضورپرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم سجدے میں تھے کہ امامِ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ  پشت مبارک سے لپٹ گئے ،حضورعلیہ الصلوۃ و السلام نے سجدے کوطول دیاکہ سراٹھانے سے کہیں گرنہ جائیں۔  (مسند ابی یعلی،مسند انس بن مالک،الحدیث۳۴۱۵،ج۳،ص۲۱)

          امامِ حسن اورامامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما کی نسبت ارشاد ہوتاہے:

          ’’ہمارے یہ دونوں بیٹے جوانانِ جنت کے سردارہیں۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۳، ج۵،ص۴۲۶)

          اورفرمایاجاتاہے :

          ’’ان کا دوست ہمارادوست ،ان کادشمن ہمارادشمن ہے ۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فضل الحسن والحسین،الحدیث۱۴۳، ج۱،ص۹۶)

          اورفرماتے ہیں :   ’’یہ دونوں عرش کی تلواریں ہیں ‘‘۔

          اور فرماتے ہیں :’’حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ،اللہ دوست رکھے اسے جوحسین کودوست رکھے، حسین سبط ہے اسباط سے ۔‘‘ 

(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۸۰۰، ج۵،ص۴۲۹)

          ایک روز حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے دہنے زانوپرامامِ حسینرضی اللہ تعالٰی عنہ اوربائیں پر حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے صاحبزادے حضرتِ ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ  بیٹھے تھے،حضرت جبریلعلیہ السلام نے حاضرہوکر عرض کی کہ’’ان دونوں کوخدا حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس نہ رکھے گاایک کواختیارفرمالیجئے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی ،تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہو گیا۔اس واقعے کے بعد جب حاضر ہوتے،آپصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم بوسے لیتے اورفرماتے: ’’مَرْحَبًا بِمَنْ فَدَیْتُہٗ بِاِبْنِیْ۔ ایسے کومرحباجس پر میں نے اپنا بیٹاقربان کیا۔ (تاریخ بغداد،ج۲،ص۲۰۰،بلفظ’’ فدیت من ‘‘)


          اورفرماتے ہیں  :  ’’یہ دونوں میرے بیٹے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں ،الٰہی!میں ان کو دوست رکھتا ہوں توبھی انہیں دوست رکھ اوراسے دوست رکھ جوانہیں دوست رکھے ۔ ‘‘(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۴، ج۵،ص۴۲۷)


          بتول زہرارضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرماتے:’’ میرے دونوں بیٹوں کولاؤپھردونوں کو سونگھتے اورسینۂ انورسے لگالیتے ۔ ‘‘(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۷، ج۵،ص۴۲۸ )


{محبوبانِ بارگاہِ الٰہی عزوجل اور قانونِ قدرت}


      جب حضورپرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلمکے یہ ارشاداورشہزادوں کی ایسی پاسداریاں ، نازبرداریاں یادآتی ہیں اورواقعاتِ شہادت پرنظرجاتی ہے توحسرت کی آنکھوں سے آنسو نہیں ،لہو کی بوندیں ٹپکتی ہیں اورخداعزوجلکی بے نیازی کاعالم آنکھوں کے سامنے چھاجاتا ہے، یہ مقدس صورتیں خداعزوجلکی دوست ہیں اوراللہ جل جلالہ  کی عادتِ کریمہ ہے کہ دنیاوی زندگی میں اپنے دوستوں کو بلاؤں میں گھرا رکھتا ہے ۔


          ایک صاحب نے عرض کی کہ’’ میں حضور سے محبت رکھتا ہوں۔ فرمایا: ’’فقرکے لئے مستعد ہوجا۔‘‘عرض کی: ’’اللہ تعالٰی کودوست رکھتا ہوں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’بلاکے لئے آمادہ ہو۔ ‘‘اورفرماتے ہیں :’’سخت ترین بلا انبیاء علیہم الصلاۃ والثنا پر ہے، پھر جوبہتر ہیں پھر جو بہترہیں۔ ‘‘(المسند للامام أحمد،الحدیث:۲۷۱۴۷،ج۱۰،ص۳۰۶)



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے