تعزیہ داری کی حقیقت| مروجہ تعزیہ داری
مسئلہ: از محمد ہاشم اشرفی باری مسجد سلی گوڑی ٹاؤن دارجلنگ (مغربی بنگال)
آج کل جو تعزیہ نکلتا ہے اس میں دو قبریں بھی بنائی جاتی ہیں ایک کو سیّدنا امام حسین اور ایک کو امام حسن رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آگے پیچھے باجہ گاجا، ڈھول تاشا وغیرہ ہوتا ہے۔ فلمی گیت وغیرہ گایا جاتا ہے، کبھی کبھی مرثیہ بھی پڑھا جاتا ہے اکھاڑا بھی ساتھ رہتا ہے لاٹھی بھالا وغیرہ کا کھیل جگہ جگہ سڑک پر تعزیہ روک کر کھیلا جاتا ہے ہاتھی، گھوڑے بھی ساتھ رہتے ہیں، لمبا لمبا جھنڈا رنگ برنگ کا تعزیہ کے ساتھ رہتا ہے کسی کسی تعزیہ میں قبر میں اندر کو ایک ایسی تصویر (مجسمہ) بنا رہتا ہے لکڑی یا مٹی وغیرہ کا جس کا سر عورت کا اور دھڑ سارا گھوڑے کا پھولوں کا ہار‘ اگر بتی وغیرہ بھی رہتی ہے۔ خوب ہنگامہ شور شرابا کرتے ہوئے یہ تعزیہ مع ان اسباب کے ایک میدان میں جاتا ہے جس کو کربلا کہتے ہیں یہ سبھی وہاں جا کر تعزیہ کی سجی سنوری چیزیں پھول اگربتی اتار کر وہاں ایک اونچی جگہ پر یا جہاں کنواں بنا ہوتا ہے ڈال کر یہ قافلہ تعزیہ پر کپڑا لپیٹ کر پھر اپنے سابقہ جگہوں پر لے جا کر رکھ دیا جاتا ہے جسے امام باڑہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں راستے بھر تعزیہ کے ساتھ یہ آوازیں اٹھائی جاتی ہیں۔حسین، حسین، یا حسین واہ، واہ، واہ، واہ کیا اکھاڑا ہے، ارے کیا شاندار تعزیہ ہے کوئی مقابلہ نہیں اس کا، ہر سال نکلتا ہے‘ ہر سال نکلے گا وغیرہا جیسے الفاظ، گھوڑے، ہاتھی پر عربی طرز کے لباس پہنا کر تلوار وغیرہ یا دعا کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں، لڑکے جوان بیٹھے رہتے ہیں، اسی طرح ایک اور چیز جسے سپر کہا جاتا ہے وہ بھی نکلتا ہے جس کی شکل یہ ہوتی ہے۔
نقشہ
دوسری طرف رسی دو اناڑی آدمیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سپر کو ایک آدمی اٹھائے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے تک دوڑاتا ہے دونوں طرف کی رسی ڈھیلی ہوتی ہے اور گھیرنی کی طرح بیچ والا آدمی اسے گھماتا ہے اوروہی الفاظ جو اوپر تعزیہ کے لئے مذکور ہیں دہرائے جاتے ہیں یہ دونوں محرم اور چہلم میں نکلتے ہیں‘ شام سے لے کر دوسرے دن دوپہر، کبھی کبھی شام تک سڑک کے دونوں جانب ساری قوم کی عورتوں کی کثیر تعداد ہوتی ہے۔ عزت و آبرو بھی نیلام ہو جاتی ہے میرے خیال میں یہ سراسر حرام ہے۔ شہادت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا مذاق اڑانا ہوا اور قوم کی عزت و آبرو بھی گئی، کیا یہ چیزیں (دونوں) جائز ہیں کیا سنی بریلوی مسلک سے اس کا کوئی تعلق ہے، میرے خیال میں تو نہیں ہونی چاہئے۔ جو لوگ یہ دونوں چیزیں نکالتے ہیں اور اس کے نکالنے کی تائید کرتے ہیں شریعت اسلامیہ ان پر کیا فتویٰ دیتی ہے اور کیا یہ دونوں چیزیں نکالنا اوردیکھنا جائز ہے کچھ سنی حضرات تائید کرتے ہیں حقیقت حال سے واقف کر کے احسان کریں۔ ممنون و مشکور ہوں گا۔
الجواب: تعزیہ کا جلوس آگے پیچھے ڈھول تاشہ، باجہ گاجا، فلمی گیت، جاندار کی تصویر، عورتوں کا ہجوم اور اسی طرح کے دیگر خرافات جو آج کل تعزیہ داری میں کئے جاتے ہیں ناجائز و حرام ہیں۔ جو لوگ ان بیہودہ باتوں کا انتظام کرتے ہیں اور وہ لوگ کہ اس کی تائید میں ہیں سب گنہگار ہیں۔ مذہب اہلسنّت و جماعت سے ان خرافات کا کوئی تعلق نہیں جیسا کہ امام اہل سنت، پیشوائے دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان ’’اعالی الافادہ فی تعزیہ الہند و بیان الشہادۃ‘‘ میں تعزیہ داری کا حکم بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: کہ ’’تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضۂ پرنور حضور شہزادۂ گلگوں قبا حسین شہید ظلم و جفا صلوٰت اللہ تعالیٰ و سلامہ علیٰ جدہ الکریم وعلیہ کی صحیح نقل بنا کر بنیت تبرک مکان میں رکھنا اس میں شرعاً کوئی حرج نہ تھا جہاں بے خرد نے اس کی اصل جائز کو نیست و نابود کر کے صدہا خرافات اور تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آئیں، اوّل تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی، ہر جگہ نئی تراش نئی گڑھت جسے اس نقل میں سے نہ کچھ علاقہ نہ نسبت، پھر کسی میں پریاں، کسی میں براق، کسی میں اور بیہودہ طمطراق پھر کوچہ بکوچہ، دشت بدشت اشاعت غم کے لئے ان کا گشت اور ان کے گرد سینہ زنی اور ماتم کی شور افگنی کوئی ان تصویویں کو جھک جھک کر سلام کر رہا ہے کوئی مشغول طواف‘ کوئی سجدے میں گرا ہے۔ کوئی ان مایۂ بدعات کو (معاذ اللہ) جلوہ گاہ حضرت امام علیٰ جدہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سمجھ کراس ابرک پنی سے مرادیں مانگتا ہے منتیں مانگتا ہے۔ حاجت روا جانتا ہے پھر باقی تماشے، باجے، تاشے، مردوں عورتوں کا راتوں میں سیل اور طرح طرح کے بیہودہ کھیل ان سب پر طرہ ہیں۔
غرض عشرۂ محرم الحرام کی اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت و محل عبادت ٹھہرا ہوا تھا ان بیہودہ رسوم نے جاہلانہ و فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا۔ اب بہار عشرہ کے پھول کھلے، تاشے باجے بجتے چلے طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم‘ شہنوائی میلوں کی پوری رسوم کا جشن‘ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں۔ کچھ نوچ اتار باقی توڑ تاڑ دفن کر دیئے۔ ہر سال اضاعت مال کے جرم و بال جداگانہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ صدقۂ حضرات شہدائے کربلا علیہم الرضوان والثناء کا ہمارے بھائیوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور بری باتوں سے توبہ عطا فرمائے۔ آمین۔
اب کہ تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کانام ہے قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔ انتھی کلامہ ملخصًا۔ مروجہ تعزیہ داری کے بارے میں یہ ہے فتویٰ امام اہلسنّت کا کہ وہ بدعت ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا مسلمانان اہلسنّت پر لازم ہے کہ اس قسم کی تعزیہ داری میں کسی طرح ہرگز شریک نہ ہوں اور نہ اپنے اہل وعیال کو شرکت کی اجازت دیں ورنہ گنہگار مستحق عذاب نار ہوں گے۔ وھو تعالٰی اعلم
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۸؍ ذی القعدہ ۱۴۰۰ھ
(فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ٤٣٧)
0 تبصرے