مندر نما تعزیہ بنانا کیسا ہے |محرم میں ڈھول وغیرہ بجانا
مسئلہ: از سیّد نصر اللہ قادری مدرسہ اشاعت الاسلام محمد ڈیہہ پوسٹ رہرا بازار ضلع گونڈہ
زید کہتا ہے کہ ہندوستان میں جس طرح تعزیہ داری کا عام رواج ہے کہ حضرت امام حسین کے روضے کے نام پر مندر کی شکل بناتے ہیں اور اس کو رکھ کر ڈھول وغیرہ بجاتے ہیں یہ ناجائز ہے‘ اور بکر کہتا ہے کہ ڈھول تاشہ وغیرہ بجانا ناجائز ہے۔ تعزیہ داری کو ناجائز اور مندر کی شکل بتانے والا سنی نہیں ہے بددین ہے تو ان میں حق پر کون ہے؟
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔ زید حق پر ہے بیشک ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری ناجائز و حرام ہے اور بے شک عام طور پر تعزیہ دار حضرت امام حسین کے روضہ کا نقشہ نہیں بناتے بلکہ مندر کی شکل کا ڈھانچہ بنا کر اس کو اپنی بیوقوفی سے امام حسین کے روضہ کا نقشہ سمجھتے ہیں اور بے شک ڈھول وغیرہ جیساکہ محرم میں عموماًبجاتے ہیں حرام و ناجائز ہے۔
اور بکر جاہل گنوار ہے جو ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری اور ڈھول تاشہ وغیرہ بجانے کو جائز سمجھتا ہے‘ اور اگر اس نے واقعی مروجہ تعزیہ داری کو ناجائز بتانے والے کو غیرسنی اور بددین کہا تو اس پہ توبہ لازم ہے کہ علمائے اہلسنّت نے مروجہ تعزیہ داری کو ناجائز قرار دیا ہے یہاں تک کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت احمد رضا خاں بریلوی رضی اللہ عنہ نے اپنے رسالہ تعزیہ داری میں ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری کو ناجائز و حرام اور بدعت سیئہ لکھا ہے اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاویٰ عزیزیہ جلد اوّل ص ۷۵ پر تحریر فرماتے ہیں: ’’تعزیہ داری ہم چو مبتدعان می کنند بدعت ست و ہم چنیں ساختن ضرائح و صورت قبور و علم وغیرہ ایں ہمہ بدعت ست و ظاہرست کہ بدعت حسنہ کو دراں ماخوذ نہ باشد نیست بلکہ بدعت سیئہ است: اور حافظ ملت حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب مرادآبادی قدس سرہ تحریرفرماتے ہیں کہ مروجہ تعزیہ داری ڈھول تاشا باجا وغیرہ یزیدیویں کی نقل اور رافضیوں کا طریقہ ہے یہ ناجائز و حرام ہے (تحریر ۳؍ رجب ۸۸ھ) وھو تعالیٰ اعلم بالصواب۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
یکم ربیع الاول ۱۴۰۱ھ
(فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ٤٣٥)
0 تبصرے