سیرت حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم

Hazrat Ali


 سیرت حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم

نام و اَلقاب


          امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مشکلکشا شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مکّۃ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں پیدا ہوئے۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی والِدۂ ماجدہ حضرت سیِّدَتُنافاطِمہ بنتِ اَسَدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام ’’ حیدر ‘‘ رکھا، والِد نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا نام ’’ علی ‘‘ رکھا۔ حُضورِ پُرنور ، شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’ اَسَدُ اللہ ‘‘ کے لقب سے نوازا ، اس کے علاوہ ’’ مُرتَضٰی (یعنی چُنا ہوا) ‘‘ ، ’’ کَرّار (یعنی پلٹ پلٹ کر حملے کرنے والا) ‘‘ ، ’’ شیرِ خدا ‘‘ اور ’’ مولا مشکِل کُشا ‘‘ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مشہور اَلقابات ہیں۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مکّی مَدَنی آقامیٹھے میٹھے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ (مراٰ ۃ المناجیح ج ۸ ص۴۱۲ وغیرہ ملخصا)


حضرتِ علی کا مُخْتَصر تعارُف


           خلیفۂ چہارُم، جانَشینِ رسول، زَوجِ بَتُول حضرتِ سیِّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی کُنْیَت ’’ ابوالحَسَن ‘‘ اور ’’ ابوتُراب ‘‘ ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ شہَنْشاہِ ابرار، مکّے مدینے کے تاجْدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا ابوطالِب کے فرزند ِ اَرجمَند ہیں۔ عامُ الْفِیْل ([1]) کے30 سال بعد (جب حضور نبی ٔ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عُمْر شریف 30 برس تھی) 13 رَجَبُ الْمُرَجَّب بروزجُمعۃ المبارَک حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ، شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم خانۂ کعبہ شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے اَندر پیدا ہوئے۔ ([2]) ؎ مولیٰ مشکل کُشاحضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی والِدَۂ ماجِدہ کا نام حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمہ بِنت اَسَد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہے۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم 10سال کی عُمْر میں ہی دائرۂ اسلام میں داخِل ہو گئے تھے اورشہَنْشاہِ نُبُوَّت، تاجْدارِ رِسالت، شافِعِ اُمّتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِتربِیَّت رہے اور تادمِ حیات آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِمداد ونُصرت اور دینِ اسلام کی حِمایَت میں مصروفِ عَمَل رہے۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مُہاجِرین اَوّلینِ اورعَشَرَہ مُبَشَّرہ میں شامل ہونے اور دیگر خُصُوصی دَرَجات سے مُشرَّف ہونے کی بِناء پر بَہُت زیادہ مُمْتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ غزوۂ بَدر، غزوہ اُحُد ، غزوۂ خَنْدَق وغیرہ تمام اِسلامی جنگوں میں اپنی بے پناہ شُجاعت کے ساتھ شرکت فرماتے رہے اور کُفّار کے بڑے بڑے نامْوَر بہادُر آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی تَلوارِ ذُوالْفِقار کے قاہرانہ وار سے واصِلِ نار ہوئے۔ امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شہادت کے بعد اَنصار ومُہاجِرین نے دَستِ بابَرَکت پر بَیْعَت کر کے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو امیرُ الْمُؤْمِنِین مُنْتَخَب کیا اور 4برس 8ماہ 9دن تک مسندِ خِلافت پر رونق افروز رہے ۔ 17 یا 19 رَمَضانُ المبارَک کو ایک خبیث خارِجی کے قاتِلانہ حملے سے شدید زخمی ہو گئے اور 21رَمَضان شریف یک شنبہ (اتوار) کی رات جامِ شہادت نوش فرما گئے ۔ (تاریخ الْخُلَفاء ص۱۳۲، اسد الغابۃ ج۴ ص۱۲۸، ۱۳۲، ازالۃ الخفاء ج۴ص۴۰۵، معرفۃ الصحابۃ ج۱ص۱۰۰وغیرہ )


اصلِ نسلِ صَفا وجہِ وصْلِ خدا


بابِ فضلِ وِلایَت پہ لاکھوں سلام   (حدائقِ بخشش شریف)


        شرح کلامِ رضا: حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم خالِص پاک سادات کی جڑاور بُنیاد ہیں ، واصِل بِاللہ ہونے (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرَّب بننے) کا سبب اور فضائلِ وِلایَت ملنے کا دروازہ ہیں ، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر لا کھوں سلام ہوں۔


صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد 


’ کَرَّمَ اللہُ  وَجْہَہُ الْکَرِیْم ‘‘ کہنے لکھنے کا سبب


       جب قُریش مبتَلائے قَحْطہوئے تھے توحُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ابوطالِب پرتخفیفِ عِیال (یعنی بال بچّوں  کا بوجھ ہلکا کرنے)  کے لئے حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنی بارگاہِ ایمان پناہ میں لے آئے،  حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حُضور مولائے کُل سیِّدُالرُسُل صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےکِنارِ اقدس (یعنی آغوش مبارَک)  میں  پَروَرِش پائی، حُضُو ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گود میں  ہوش سنبھالا،  آنکھ کُھلتے ہی محمّدٌ رَّسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاجمالِ جہاں  آرا دیکھا،  حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی باتیں  سنیں  ،  عادتیں  سیکھیں۔ تو جب سے اِس جنابِ عِرفان مآب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ہوش آیا قَطْعًایقیناًربّ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ہی جانا ،  ایک ہی مانا۔ ہرگز ہرگز بُتوں  کی نَجاست سے ان کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا۔اسی لئے لَقَبِ کریم  ’’ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ  ‘‘  ملا۔  (فتاوی رضویہ ج ۲۸ ص۴۳۶)  10برس کی عمر میں  شجرِ اسلام کے سائے میں  آ گئے،  نبیِّ کریم، رء ُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے لاڈلی شہزادی حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی کی زَوجِیّت میں  آئیں۔ بڑے شہزادے حضرتِ سیِّدنا امام حَسَن مُجتَبٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نسبت سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کُنْیَت  ’’ اَبُوالحَسَن ‘‘  ہے اور مدینے کے سلطان،  سردارِ دوجہان،  رحمتِ عالمیان،  سرورِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو  ’’ ابُو تُراب  ‘‘  کُنیْت عطا فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء ص۱۳۲)  حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی،  شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو یہ کُنْیَت  اپنے اصلی نام سے بھی زیادہ پیاری تھی۔  (بُخاری ج۲ ص ۵۳۵حدیث۳۷۰۳)


 ابو تُراب ‘‘ کُنیت کب اور کیسے ملی!


   حضرتِ سیِّدُناسَہْل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ایک روزشہزادیٔ کونین حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس گئےاور پھر مسجِد میں آکر لیٹ گئے۔ (ان کے جانے کے بعد) تاجدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطان مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (گھر تشریف لائے اور) بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے اُن کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ مسجِد میں ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لے گئے اورمُلاحَظہ فرمایاکہ ( حضرتِ) علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) پر سے چادرہٹ گئی ہے، جس کی وجہ سے پیٹھ، مِٹّی سے آلودہ ہے۔ رسولِ کریم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلٰوةِ وَالتَّسْلِيْمان کی پیٹھ سے مِٹّی جھاڑ نےلگے اور دو مرتبہ فرمایا: قُمْ اَبَا تُرَابٍیعنیاٹھو!  اے ابو تُراب۔           (بُخاری ج۱ص۱۶۹حدیث۴۴۱)  


اُس نے لقبِ خاک شَہَنْشاہ سے پا

(جو حیدرِ کَرّار کہ مولی ہے ہمارا (حدائقِ بخشش شریف


صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے